ایسٹونیا: یورو زون میں شمولیت کے بعد کے تاثرات
6 جنوری 2011ایسٹونیا میں یورو کے اجراء سے پہلے مختلف مالیت کے سکوں کے لاکھوں چھوٹے چھوٹے پیکٹ، جو بینکوں سے خریدے جا سکتے تھے، ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئے تھے۔
کم از کم ایسٹونیا میں یورو کی Starter Kit کہلانے والے ان پیکٹوں کی خاص بات یہ تھی کہ بالٹک کی اس ریاست کے شہریوں کی بہت بڑی اکثریت کو قبل از وقت ہی یورو کے مختلف مالیت کے سکوں سے متعارف ہونے کا موقع مل گیا تھا۔ اس کا سبب یہ کہ یورو سے پہلے ایسٹونیا میں کرونا رائج تھا اور یورپی حکام کی طرف سے طے کردہ شرح کے مطابق ایک یورو 15 کرونے کے برابر بنتا ہے۔ لیکن ایسٹونیا میں کرونے کے سکے تو استعمال میں تقریباﹰ تھے ہی نہیں۔
ملکی دارالحکومت ٹالین کی رہنے والی ایک طالبہ Evelyn Tammکہتی ہیں: ’’میرے لیے، اور بہت سے دوسرے شہریوں کے لیے خود کو اس نئی کرنسی کا عادی بنانا مشکل ہو گا۔ پہلے اگر ہمارے ہاتھ میں پندرہ کرونے ہوتے تھے تو اب صرف ایک یورو ہوتا ہے۔ یورو کے مختلف مالیت کے سینٹ کہلانے والے سکے اس کے علاوہ ہیں۔ اسی لیے شروع میں اس نئی کرنسی کی اصل قدر کا اندازہ لگانا قدرے مشکل ہو گا۔‘‘
ایسٹونیا کے وزیر خزانہ Jürgen Ligi اپنے ہم وطنوں کی اس سوچ کے بارے میں کہتے ہیں کہ چند ہی مہینوں میں عام لوگ کچھ بھی خریدنے سے پہلے، اپنے ذہنوں میں قیمتوں کو کرونے میں تبدیل کرنے کی عادت ترک کر دیں گے۔ ’’ایسٹونیا کے عوام زیادہ سے زیادہ ادائیگیاں اپنے کریڈٹ کارڈز اور ATM کارڈز کے ذریعے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں پلاسٹک منی کا رجحان کافی زیادہ ہے۔ اسی لیے یورو کے ایک سینٹ سے لے کر دو یورو مالیت تک کے بہت سے سکے کسی حد تک بے چینی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ لیکن ان سکوں کی جگہ پلاسٹک منی لے لے گی۔‘‘
سن 2010 کے دوران یورپی مشترکہ کرنسی کے طور پر یوروکو جس بحرانی صورتحال کا سامنا رہا، اور جو ابھی تک ختم نہیں ہوئی، اس کے پیش نظر ٹالین کی رہنے والی ایک خاتون مینیجر Maris Hellrand کا کہنا ہے: ’’یورو کی صورتحال بہت خوش کن نہیں ہے۔ اس پر بہت زیادہ بحث ہو چکی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایک ایسی دلہن سے شادی کرنے جا رہے ہیں، جو بیمار ہے۔ لیکن ایسٹونیا کی معیشت کے براہ راست رابطے یورپی یونین کی معیشت سے ہیں۔ لہٰذا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ اسی لیے یہ ہمارےحق میں وہ بہترین پیش رفت ہے، جوممکن ہو سکتی تھی۔‘‘
ایسٹونیا کے وزیر اعظم آندرُس آنسِپ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کے ملک کو یورپ سے سب سے بڑا فائدہ یورو کی صورت میں پہنچا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹالین حکومت نے یورو زون کی رکنیت کی شرائط پوری کرنے کے لیے اقتصادی حوالے سے انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور اب یورو ہی کی وجہ سے ایسٹونیا پر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں مزید اضافہ ہو گا۔
وزیر اعظم آنسپ نے کہا: ’’ایسٹونیا میں ہم نے مالیاتی حوالے سے حقیقت میں اپنی کوئی سیاسی پالیسی کبھی اپنائی ہی نہیں۔ 1992ء میں جب ہم نے ایسٹونین کرونے کا آغاز کیا، تو اس کی شرحء تبادلہ جرمن مارک کی قدر و قیمت سے منسلک تھی۔ یعنی ایک جرمن مارک آٹھ کرونے کے برابر ہوتا تھا۔ پھر ہم نے 15.6 کرونے کی شرحء تبادلہ سے اپنی کرنسی کو یورو کی شرح سے منسلک کر دیا۔ تبادلے کی ان دونوں شرحوں میں ہم نے گزشتہ اٹھارہ برسوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ہم جرمنی کی مالیاتی سیاست پر مکمل اعتماد کر سکتے ہیں۔‘‘
ایسٹونیا کی خاص بات یہ ہے کہ بالٹک کی اس ریاست کو یورپی یونین کے رکن دوسرے ملکوں کی طرح بہت زیادہ ریاستی خسارے کا سامنا نہیں ہے۔ وہاں عوامی شعبے کے ذمے قرضوں کی کل مالیت اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 7.2 فیصد بنتی ہے، جو پورے یورپ میں سب سے کم ہے۔
جب ایسٹونیا ابھی ماضی کی ریاست سوویت یونین کا حصہ تھا، تو وہاں رائج کرنسی کا نام روبل تھا۔ اس حوالے سے ایسٹونیا میں عوامی سطح پر ایک دلچسپ موازنہ بھی سننے میں آتا ہے۔ ’’ہم یورو کو یورپی رُوبل بھی کہتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ سب کے لیے ایک ہی کرنسی کا نظریہ ہمیں بہت زیادہ حد تک سوویت یونین کے دور کی یاد بھی دلاتا ہے۔‘‘
ایسٹونیا اور یورو کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ٹالین میں ملکی حکومت یورو کے اجراء کے بعد کیا محسوس کرتی ہے؟ ایسٹونین وزیر خزانہ ژُرگن لِیگی کہتے ہیں: ’’ہم تیار ہیں۔ ہم خود پر نئی ذمہ داریاں لے سکتے ہیں۔ یورپ نے ایسٹونیا کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ اب ہم یورپ کو بھی کچھ واپس لوٹانا چاہتے ہیں۔‘‘
ژرگن لیگی کی رائے میں یورپی مشترکہ کرنسی خود کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یورو کی یونان، آئرلینڈ اور پرتگال جیسی ریاستوں کی خراب اقتصادی صورتحال ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف توقیر