ایس پی ڈی مہاجرین سے متعلق معاہدے پر کاربند رہے، سی ایس یو
عاطف توقیر
24 فروری 2018
جرمن چانسلرمیرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی باویریا صوبے میں سسٹر پارٹی کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) نے خبردار کیا ہے کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی(ایس پی ڈی) مہاجرین سے متعلق ڈیل پر کاربند رہے۔
تصویر: Getty Images/C. Koall
اشتہار
کرسچین سوشل یونین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) حکومت سازی کے لیے طے پانے والے اس معاہدے سے الگ نکتہ نظر اپناتی ہے یا مہاجرین سے متعلق طے شدہ ڈیل سے پیچھے ہٹتی ہے، تو وسیع تر حکومت کے قیام کے لیے طے پانے والے پورا معاہدہ ڈھ جائے گا۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
یہ بات اہم ہے کہ ایس پی ڈی کے ارکان وسیع تر اتحاد پر مبنی حکومت کے قیام کے لیے طے پانے والے معاہدے کی منظوری دو مارچ تک پوسٹل بیلٹ کے ذریعے دیں گے اور نتائج کا اعلان چار مارچ کو کیا جائے گا۔
باویریا کی قدامت پسند جماعت سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نے روزنامہ آؤگسبرگر الگمائنے سے بات چیت میں کہا کہ نئی قانون سازی کے ذریعے سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزاروں کی ملک بدری کو آسان بنایا گیا ہے اور سرحدی علاقوں ہی میں تارکین وطن کے لیے مراکز قائم کرنے کی تجوز دی گئی ہے، تاکہ ان کی جانب سے دائرکردہ سیاسی پناہ کی درخواستوں کو وہیں نمٹایا جا سکے۔
برلن میں نمائش: ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘
جرمن دارالحکومت میں ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘ کے عنوان سے تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس نمائش میں اس چیلنج کی مختلف جہتوں کا تصویری اظہاریہ شامل کیا گیا تھا۔
تصویر: Matthias Nold
مہاجرین کی زندگی
جرمن فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل نے یہ دستاویزی تصاویر یونان، اٹلی اور جرمنی میں 50 سے زائد پناہ گزینوں کے مہاجر مراکز میں مہاجرین کی روز مرہ کی زندگی کو عکس بند کیا ہے۔
تصویر: Matthias Nold
مہاجرین کی خیمہ بستیاں
یونان اور اٹلی کے جزائر پر مہاجرین کی بڑی تعداد کی آمد کے بعد ان کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے انہیں ان جزائر پر ہی روکا جاتا ہے۔ مہاجرین کی عارضی رہائش کے لیے عمومی طور پر خیموں یا شیلٹرز کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
تصویر: Matthias Nold
منفرد عکاسی
فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل نے یورپ کے ساحلوں پر مہاجرین کی آمد کے بعد کے مناظر کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی تناظر میں مشائل روتھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ سال یورپی یونین اور ترقی کے درمیان مہاجرین کے سلسلے میں طے کیا جانے والا معاہدہ بہت اہم تھا۔
تصویر: Matthias Nold
تصاویر سے رہنمائی
برلن میں دفترِ خارجہ کے دالان میں وفاقی وزیر برائے یورپ مشائیل روتھ نے’مہاجرین، ایک بڑا چیلنج‘ نمائش کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر مشائل روتھ نے فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل کے فن پاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نمائش میں پیش کی جانے والی تصاویر یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کی موجودہ صورت حال کو کیسے بہتر کیا جائے۔
تصویر: Matthias Nold
یونان، اٹلی اور جرمنی میں مہاجرین کے مراکز کی حالت
مجموعی طور پر کوئلبل نے ان فن پاروں میں پناہ گزینوں کو خیموں میں پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ کوئلبل نے شرکاء کو بتایا کہ یونان اور ااٹلی کے مقبالے میں جرمنی میں پناہ گزینوں کی رہائش گاہ کی صورت حال قدرے بہتر ہے۔
تصویر: Matthias Nold
ایک تصویر ایک کہانی
تصاویری نمائش ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘ میں کثیر تعداد میں سیاسی، سماجی، اور ذرائع ابلاغ کی طرح ہر سماجی حلقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر شرکاء کا کہنا تھا کہ چند تصویریں صرف ایک لمحہ نہیں بلکہ پناہ گزینوں کی تمام زندگی کی کہانی پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Matthias Nold
6 تصاویر1 | 6
انہوں نے کہا کہ اگر ایس پی ڈی اتحادی حکومت کے قیام پر راضی ہونے کے بعد بھی اس قانون کی منظوری کو روکتی ہے، تو یہ بات حکومت کے خاتمے کے برابر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایس پی ڈی کو قدامت پسندوں کے ساتھ طے کردہ معاہدے پر کاربند رہنا ہو گا۔
کہا جا رہا ہے کہ نئی وسیع تر حکومت میں زیہوفر، جو اس وقت باویریا صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، وفاقی وزیر داخلہ کا قلم دان حاصل کر سکتے ہیں۔ زیہوفر نے کہا کہ یہ قانون سازی باویریا میں 14 اکتوبر کے انتخابات سے قبل تکمیل پا جانا چاہیے۔
یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بری رہی تھی اور باویریا صوبے میں اس کی حلیف جماعت سی ایس جو کو بھی دس فیصد کم عوامی تائید ملی تھی۔ اس خراب کارکردگی میں اہم کردار مہاجرین کے بحران کی وجہ سے جرمن عوام میں پائی جانے والی بے یقینی اور تشویش نے ادا کیا۔