ایس پی ڈی کا چانسلر شپ کے لیے شولس کو نامزد کرنے کا ارادہ
10 اگست 2020
جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی منصوبہ بنا رہی ہے کہ وزیر خزانہ اولاف شولس کو آئندہ الیکشن میں چانسلر کا امیدوار نامزد کر دیا جائے۔ وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل ایس پی ڈی کی طرف سے یہ اعلان کئی حلقوں کے لیے غیرمتوقع ہے۔
اشتہار
جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کی شریک رہنما ساسیکا ایسکن نے پیر کے دن اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اولاف شولس کو چانسلر کا امیدوار نامزد کرنے کا منصوبہ دراصل کئی لوگوں کے لیے غیر متوقع ہے۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی میں شولس پر اعتماد میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اگر باسٹھ سالہ شولس کی نامزدگی کو حتمی شکل دے دی جاتی ہے تو سن دو ہزار اکیس کے الیکشن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ڈی یو) کے کسی امیدوار کے طاقتور مد مقابل ہوں گے۔ سی ڈی یو کے سیاسی اتحاد نے آئندہ برس کے انتخابی عمل کے لیے کسی کو بطور چانسلر نامزد نہیں کیا ہے۔
تاہم یہ بات قطعی ہے کہ انگیلا میرکل ایک مرتبہ پھر چانسلر کے عہدے کے لیے میدان میں نہیں اتریں گے۔ انہوں نے حتمی طور پر کہہ رکھا ہے کہ وہ پانچویں مدت کے لیے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گی۔
ہیمبرگ کے سابق میئر شولس نے میرکل کی کابینہ میں وزارت خزانہ کا قلمدان دو سال قبل سنبھالا تھا۔ بطور وفاقی وزیر انہوں نے کم و بیش اپنے پس رو قدامت پسند سیاستدان وولف گانگ شوئبلے کی پالیسوں کو ہی جاری رکھا لیکن کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد شولس نے ملک کی معیشت کو ممکنہ مشکلات سے بچانے کے لیے اہم فیصلے کیے۔
عوامی جائزوں کے مطابق ایس پی ڈی کی مقبولیت میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ سن دو ہزار سترہ کے الیکشن میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو 20.5 فیصد کی عوامی حمایت حاصل تھی تاہم اب یہ گر کر 15 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ان جائزوں کے مطابق جرمنی کی ورکنگ کلاس بھی اس پارٹی پر اعتماد کھوتی جا رہی ہے، جو کبھی اس پارٹی کا اہم ووٹ بینک ہوا کرتا تھا۔
ع ب / ک م / خبر رساں ادارے
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔