ایشیائی ملازمت پیشہ خواتین اورکساد بازاری
3 اگست 2009مزدوروں کی عالمی تنظیم ILO کے مطابق ایشیا میں عورتوں کی بیروزگاری کی شرح میں رواں سال میں 5.7 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 4.7 فیصد رہی۔ بینکاک میں سوئمنگ کاسٹیوم بنانے والی ایک کمپنی نے مالی بحران کو وجہ بناتے ہوئے قریب 2000 ملازمین کو نوکری سے نکال دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ملازمین میں اکثریت خواتین کی تھی۔
مزدوروں کے حقوق کے لئے سرگرم ایک کارکن کے مطابق یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ کسادبازاری کے اس دور میں خاص کر ترقی پذیر ممالک میں کم تنخواہوں والے اداروں میں صنعتی تفریق بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ عالمی تنظیم برائے مزدوراں ILO کے ایشیا بحرالکاہل ہیڈکوارٹر سے منسلک ایک ماہر معاشیات گیورگی سیرآکی کا کہنا ہے کہ اس بحران سے پہلے بھی، عورتوں اور مردوں کے درمیان روزگار کے مواقعوں میں خاطر خواہ فرق نظر آتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مردوں کے مقابلے میں نہ صرف بہت کم خواتین برسرروزگار ہیں بلکہ ان کی نوکری بھی مستقل نہیں۔
ماہرین کے مطابق ایشیا میں کم ہنر یافتہ خواتین خاص کر وہ جو کم آمدنی والے اداروں میں جُز وقتی ملازمت کرتی ہیں، کے لئے موجودہ مالی بحران اور کساد بازاری کسی طور بھی اچھی خبر نہیں ہے۔ILO کے اعداد و شمار کے مطابق اس خطے میں مردوں کی نسبت خواتین کی بیروزگاری کی شرح ایک فیصد زیادہ رہی ہے۔ اس حوالے سے ایشیائی خواتین کی ایک کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس سال ایشیا بحرالکاہل کی 14 ریاستوں میں 27 ملین افراد کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے اور اس میں سے اکثریت عورتوں کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انفرادی طور پر ایشیائی ممالک میں بیروزگاری کی شرح معلوم کرنا دشوار ہوتا ہے کیونکہ ان ممالک میں ، اس سے متعلق سروے نہیں کئے جاتے۔ اس سب کے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر بیروزگاری کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں عورتیں زیادہ متاثرہو رہی ہیں۔
ایشیا میں ایسی انڈسٹریز جو لباس، ٹیکسٹائل اور الیکٹرونکس سے متعلق مصنوعات بناتی ہیں، ان میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں مالی بحران کا زیادہ شکار ہوتی نظر آئی ہیں۔ ماہرین معاشیات، عورتوں اور مردوں کی تنخواہوں میں موجود فرق کی وجہ معاشرتی تفریق بتاتے ہیں جس میں ایک مرد کو گھر کے تمام اخراجات کا ذمہ دار قراردیا جاتا ہے اورعورت کو یہ مقام نہیں دیا جاتا۔
اس پوری صورتحال سے بیرون ممالک کام کرنے والی خواتین بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔ مثلاً بیرون ملک کام کرنے والے انڈونیشیائی باشندوں میں سے 80 فیصد خواتین ہیں جو کہ انڈونیشیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار کا بارہ فیصد بنتا ہے۔