ایک بلین سے زائد نشہ آور میتھ گولیاں پکڑی گئیں، اقوام متحدہ
30 مئی 2022
مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں کیمیائی منشیات کی اسمگلنگ اور تجارت گزشتہ برس بھی زوروں پر رہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے سال خطے کے مختلف ممالک میں حکام نے ایک بلین سے زائد نشہ آور گولیاں ضبط کر لیں۔
اشتہار
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے پیر تیس مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر (یو این او ڈی سی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سال 2021ء کے دوران مشرقی اور جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک میں پکڑی جانے والی کیمیائی منشیات کی مقدار میں واضح اضافے کے باوجود ان خطوں میں ایسے نشہ آور مادوں کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان خطوں میں نشے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں کی پیداوار بھی عروج پر رہی۔
’مَیتھ کے سیلاب میں تیرتا ہوا خطہ‘
یو این او ڈی سی کی اس رپورٹ کے مطابق براعظم ایشیا کے اس حصے میں مَیتھ ایمفیٹامین یا مختصراﹰ صرف مَیتھ کہلانے والا نشہ آور کیمائی مادہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی منشیات میں سے ایک ہے۔ ''2021ء میں اس خطے میں مَیتھ کی قیمتوں میں کمی ہوئی، جو ایسی منشیات کی دستیابی میں بہت زیادہ اضافے کا ثبوت ہے۔‘‘
عالمی ادارے کے دفتر UNODC کے جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کے لیے نگران اہلکار جیریمی ڈگلس نے بتایا، ''یہ پورا خطہ اس وقت جیسے مَیتھ ایمفیٹامین کے سیلاب میں تیر رہا ہے۔ ہماری رائے میں اب وقت آ چکا ہے کہ خطے کی حکومتوں کو اپنی پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کرتے ہوئے لازمی طور پر اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔‘‘
یو این او ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں ضبط کی گئی مَیتھ نامی نشہ آور گولیاں اتنی زیادہ تھیں کہ ان کی کرسٹل، مائع اور پاؤڈر تینوں حالتوں میں برآمدگی کے حجم میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اشتہار
171 ٹن سے زیادہ مَیتھ ضبط
اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر کے مطابق 2021ء میں ایشیائی ممالک میں حکام نے مجموعی طور پر 171.5 ٹن مَیتھ نامی نشہ آور مادہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس سے قبل 2020ء میں یہ مقدار 170 ٹن رہی تھی۔
عالمی ادارے کے ماہرین کے مطابق کیمیائی طور پر تیار کردہ ان نشہ آور مادوں میں سے 90 فیصد سے زائد منشیات تھائی لینڈ، لاؤس، میانمار اور کمبوڈیا میں ضبط کی گئیں۔ اسی خطے کو انسداد منشیات کے ماہرین بین الاقوامی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے 'سنہری مثلث‘ کہتے ہیں۔
گروہ کے سرغنے سے جیل تک، لاطینی امریکا کے خطرناک’ڈان‘
’چھوٹا‘، ’سنہرے بال والا‘ یا ’چوپیتا‘: انہیں اس طرح کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ منشیات فروش گروہوں کے سفاک سرغنہ افراد ہیں۔ ان میں سے کئی آج کل جیلوں میں۔ آئیے آپ کو ملواتے ہیں لہو کے پیاسے ان ڈانز سے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Guzman
یوآکن ’ ایل چاپو‘ گزمان
میکسیکو کے سینالوآ نامی گروہ کا سربراہ گزمان عرف ایل چاپو متعدد مرتبہ شہہ سرخیوں میں رہ چکا ہے۔ وہ دو مرتبہ تو جیل سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔ ایف بی آئی اور انٹرپول کی مطلوب ترین افراد کی فہرست میں اسامہ بن لادن کے بعد دوسرا نام اس کا تھا۔ اسے منی لانڈرنگ، اغواء، منشیات فروشی اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 2017ء میں امریکا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Mendez
ہیکٹور پالما سالازار ’ایل گوئیرو‘
سالازار’ایل چاپو‘ کا اہم ترین ساتھی ہوا کرتا تھا۔ 2007ء میں اسے کوکین کی اسمگلنگ کے جرم میں امریکا کے سپرد کر دیا گیا۔ ’ایل گوئیر‘ یعنی سنہرے بال والے‘ کی اس کے اچھے رویے کی وجہ سے سزا کم دی گئی تھی۔ سولہ کے بجائے نو سال جیل میں گزرانے کے بعد اسے 2016ء میں کولوراڈو کی جیل سے رہا کرتے ہوئے میکسیکو بدر کر دیا گیا تھا۔ وہ وہاں پر قتل کے جرم میں سخت حفاظتی انتظامات والی التیپلانو کی جیل میں قید ہے۔
تصویر: thewhistleblowers.info
گلبیرتو اور میگیل رودریگیز اوریخوئیلا
میگیل اور گلبیرتو رودریگیز 1995ء تک کولمبیا کے کالی نامی گروہ کے سرغنے تھے۔ ان کے تعاون کی وجہ سے پولیس پابلو ایسکوبار کو بھی گرفتار کر پائی تھی۔ ان دونوں بھائیوں کو امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا اور 2006ء میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ میگیل جنوبی کیرولینا جبکہ گلبیرتو شمالی کیرولینا کی جیل میں قید ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/SIJIN
دیئیگومونتویا سانچیز’ڈون ڈیئیگو‘
امریکی وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی مطلوب ترین افراد کی فہرست میں سانچیز عرف ڈون ڈیئیگو دسویں نمبر پر تھا۔ ڈون ڈیئیگو 1990ء کی دہائی میں کولمبیا کا نورتے دیل ویا نامی کینگ چلایا کرتا تھا۔2007ء میں اسے کولمبین فوج نے گرفتار کر کے اگلے ہی برس امریکا کے حوالے کر دیا تھا۔ 2009ء میں اس نے منیشات فروشی، قتل اور رقم کی جبراً وصولی جیسے جرائم قبول کر لیے تھے۔ اسے 45 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خوآن کارلوس رامیریز آبادیا عرف چوپیتا
ایسکوباراس کی ہلاکت اور رودریگیز بھائیوں کی گرفتاری کے بعد’چوپیتا‘ کا نام سنائی دیا جانے لگا۔ یہ کوکین امریکا اسمگل کرتا تھا۔ 2007ء میں اسے برازیل میں حراست میں لے کر امریکی حکام کو سپرد کر دیا گیا تھا۔ چوپیتا کو 55 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے کے خدو خال تبدیل کرنے کے لیے کئی آپریشنز کروائے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
Édgar Valdez Villarreal, “La Barbie”
ایڈگر والدیز ولیاریئل ’ لا باربی‘ یہ سمجھنا تو مشکل ہے لیکن کہتے ہیں کہ اسے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یہ عرفیت ملی ہے۔ ولیاریئل کا ایل چاپو سے قریبی تعلق تھا۔ اسے میکسیکو کی تاریخ میں سب سے سفاک و ظالم منشیات فروش سرغنہ کہا جاتا ہے۔ 2010ء میں اسے میکسیکو میں گرفتار کیا گیا اور 2015ء میں اسی کی امریکا حوالگی ہوئی۔ یہ انچاس سال کی سزا بھگت رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Guzman
’پیسیفک کی ملکہ‘
ساندرا آویلا بیلتران عرف پیسیفک کی ملکہ کا تعلق میکسیکو سے ہے۔ اسے میکسیکو کے سینالوآ اور کولمبیا کے نورتے دیل ویا نامی کینگز کے مابین ایک اہم رابطہ سمجھا جاتا تھا۔ عدالت میں اس کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکا تھا۔ تاہم غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے جرم میں اسے 2013ء میں میامی کی ایک عدالت نے تقریباً چھ سال کی سزا سنائی تھی۔ آج کل وہ ایک آزاد شہری کے طور پر زندگی گزار رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
الفریڈو بیلتران لیوا’ایل موچومو‘
یہ کبھی ایل چاپو گزمان کا بہت ہی قریبی ساتھی ہوا کرتا تھا اور بعد ازاں ایل موچومو کی اس کا شدید ترین دشمن بن گیا تھا۔ میکسیکو کے سینالوآ گروہ کے خلاف اس نے خونریز ترین جنگ لڑی تھی۔ 2008ء میں لیوا عرف ایل موچومو کو میکسیکو میں ہی حراست میں لیا گیا اور 2014ء میں وہ امریکی قید میں تھا۔ منشیات فروشی کے الزام میں وہ امریکی شہرکولمبیا کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Torres
داماسو لوپیز ’ایل لیسینسیادو‘
ایل لیسنسیادو میکسیکو کی پوئنتے گراندے نامی جیل کا نائب ڈائریکٹر ہوا کرتا تھا۔ ایل لیسنسیادو نے 2001ء میں ایل چاپو کو اسی جیل سے فرار ہونے میں مدد کی تھی۔ اس کے بعد سے یہ تعلیم یافتہ شخص گزمان عرف ایل چاپو کے قریب ترین قابل بھروسہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔ 2017ء میں اسے میکسیکو میں گرفتار کر کے اسی برس امریکا بھیج دیا گیا تھا۔ کوکین اسمگل کرنے کے جرم میں وہ عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Jasson
ویسینتے زمبلادا نیئبلا ’ایل ویسینتیلو‘
آج کل سینالوآ گینگ اسمعیل زمبلادا چلاتا ہے اور ویسینتے اس کا بیٹا ہے۔ یہ 2009ء میں پکڑا گیا تھا اور تین سال بعد اسے امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ ایل ویسینتیلو ایل چاپو کے خلاف مقدمے میں امریکی حکام کی مدد کر رہا ہے اور اسی وجہ سے پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ بعد ازاں اسے چار سال بعد ہی رہا کر دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Guzman
10 تصاویر1 | 10
زیادہ تر استعمال تفریح کے لیے یا کارکنوں کی طرف سے
عالمی ادارے کے ماہرین کے مطابق تھائی لینڈ، لاؤس، میانمار اور کمبوڈیا جیسے ممالک میں مَیتھ نامی نشہ آور گولیاں یا تو تفریح کے لیے استعمال کی جاتی ہیں یا پھر انہیں بڑی تعداد میں عام مزدور اور کارکن استعمال کرتے ہیں۔
مَیتھ گولیوں کی غیر قانونی پیداوار کا مرکز میانمار کی ریاست شان کو سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ برس شان سے علاقے کے دیگر ممالک میں اسمگلنگ کے لیے مجرموں کی طرف سے استعمال کیے جانے والے راستوں میں تبدیلی کا رجحان بھی دیکھا گیا۔
جیریمی ڈگلس کے مطابق، ''اس پورے علاقے میں ایسی منشیات بہت بڑی مقدار میں پکڑی جا رہی ہیں۔ لیکن اس عمل کا ایسی منشیات کے غیر قانونی کاروبار پر زیادہ اثر اس لیے نہیں پڑ رہا کہ جرائم پیشہ گروہ ان منشیات کی پیداوار میں بھی مسلسل اضافہ کرتے جاتے ہیں۔‘‘
یو این او ڈی سی کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ایشیائی ممالک میں جو کیمیائی نشہ آور گولیاں پکڑی گئیں، ان کی مجموعی تعداد ایک بلین سے زائد رہی۔ اس دوران لاؤس میں پکڑی جانے والی مَیتھ گولیوں کی تعداد میں 2020ء کے مقابلے میں 660 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
جیریمی ڈگلس نے بتایا کہ لاؤس منشیات کے اسمگلروں کے لیے اس لیے ایک آسان راستہ بن گیا کہ تھائی لینڈ اور جنوبی چین میں اینٹی نارکوٹکس آپریشنز کے باعث مجرموں کے منظم گروہوں کے لیے شمالی لاؤس ایک ایسا خطہ بن گیا تھا، جہاں وہ اپنے مجرمانہ کاروبار کو توسیع دے سکتے تھے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس کمبوڈیا میں حکام نے کیٹامائن نامی جو نشہ آور مادہ اپنے قبضے میں لیا، اس کی مقدار 2.7 ٹن بنتی تھی، جو ریکارڈ حد تک زیادہ تھی۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ کمبوڈیا میں 2021ء میں ضبط کیا گیا یہ کیٹامائن نشہ آور کیمیائی مادہ وہاں پچھلے پانچ سال کے دوران قبضے میں لی گئی کیٹامائن کی مجموعی مقدار کے تقریباﹰ 15 گنا کے برابر تھا۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی)
جرمنی: نت نئی منشیات کی ’تجربہ گاہ‘
آج کل دنیا بھر کی خفیہ لیبارٹریوں میں جو منشیات تیار کی جا رہی ہیں، اُن میں سے بیشتر کے پیچھے جرمن سائنسدانوں، فوج اور کاروباری اداروں کی اختراعی اور تخلیقی قوتیں اور جوش و جذبہ کارفرما رہا ہے۔
منشیات کے ذریعے حملہ
1939ء میں پولینڈ پر اور 1940ء میں فرانس پر کیے جانے والے حملوں میں ہٹلر نے ایسے فوجی سرگرمِ عمل کیے، جن کی استعدادِ کار کو کیمیاوی مادوں کی مدد سے بڑھایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف فرانس پر حملے کے دوران لڑنے والے دستے کو ہی پیرویٹین کی ’ٹینک چاکلیٹ‘ کہلانے والی پینتیس ملین گولیاں کھلائی گئی تھیں۔ دوسری طرف اتحادی افواج بھی کچھ ایسا ہی کر رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Bildarchiv
بیدار، نڈر اور بھوک سے بے نیاز
نازی جرمن فوج کی اس حیران کُن گولی کو سب سے پہلے ایک جاپانی نے مائع شکل میں تیار کیا تھا۔ برلن کی ٹیملر ورکس کمپنی کے کیمیا دانوں نے اس پر تحقیق کو آگے بڑھایا اور 1937ء میں ایک پیٹنٹ کا اندراج کروایا۔ ایک ہی سال بعد یہ باقاعدہ ایک دوا کے طور پر بازار میں آ گئی۔ اس دوا سے تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور ڈر جاتا رہتا تھا۔ آج یہی ’پیرویٹین‘ غیر قانونی طور پر ایک اور نام ’کرسٹل مَیتھ‘ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔
خود ہی سب سے بڑا گاہک؟
مؤرخین کے مابین اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اڈولف ہٹلر خود بھی پیرویٹین کا نشہ کرتا تھا۔ ان کے ذاتی معالج تھیو موریل کی فائلوں میں اکثر نمایاں طور پر حرف ’ایکس‘ لکھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ یہ کس دوا کی جگہ لکھا جاتا ہو گا۔ اتنی بات یقینی تصور کی جاتی ہے کہ ہٹلر کو بہت ہی سخت قسم کی ادویات دی جاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر آج کل کے ضوابط کی رُو سے ممنوع قرار پائیں گی۔
نت نئی منشیات بنانے والوں کی سرگرمیاں نازی دور سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ جرمنی کی بائر کمپنی آج ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی نے اُنیس ویں صدی کے اواخر میں اپنی ایک بہت زیادہ بکنے والی دوا کا اشتہار کچھ ان الفاظ کے ساتھ دیا تھا: ’’ہیروئن کی بدولت کھانسی ختم۔‘‘ اس کے فوراً بعد مرگی، دمے، شیزوفرینیا اور دل کے عوارض کے لیے بچوں تک کو ہیروئن دی جانے لگی۔ اس دوا کا ضمنی اثر قبض بتایا گیا تھا۔
تخلیقی ذہن کے حامل کیمیا دان
فیلکس ہوفمان کو خاص طور پر اُن کی ایجاد کردہ اسپرین کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یونہی سرِ راہے وجود میں آیا، جب وہ سرکے کے تیزاب کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔اسپرین کے برعکس اس بار اس کیمیا دان نے اس تیزاب کو مارفین یعنی پوست کے خشک ہو چکے جوس کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ’ہیروئن‘ جرمنی میں 1971ء میں پابندی لگنے سے پہلے تک قانونی طور پر فروخت ہوتی رہی۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کے لیے کوکین
جرمن شہر ڈارم اشٹٹ کے ادارے مَیرک نے 1862ء ہی میں کوکین کی پیداوار شروع کر دی تھی، تب آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اسے اپنے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی تیاری کے لیے البرٹ نیمان نامی جرمن محقق ایک عرصے تک جنوبی امریکا سے آئے ہوئے کوکا کے پتوں کے ساتھ تجربات کرتا رہا تھا۔ نیمان کوکین تیار کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گیا تھا لیکن کوکین سے نہیں بلکہ نمونیے سے۔
تصویر: Merck Corporate History
’جوش اور کام کرنے کی صلاحیت‘
بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں کوکین کو بے ضرر قرار دیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنے سے انسان کے اندر جوش بھر جاتا ہے، وہ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ بعد میں ایک دوست کے منشیات کے استعمال کے نتیجے میں انتقال کے بعد فرائیڈ کے کوکین کے بارے میں جوش و خروش میں بھی کمی آئی۔ تب ڈاکٹر سر درد اور پیٹ درد کے لیے بھی کوکین کے استعمال کی ہدایت کرتے تھے۔
تصویر: Hans Casparius/Hulton Archive/Getty Images
ایکسٹیسی کا فراموش کردہ پیٹنٹ
امریکی کیمسٹ الیگزینڈر شَلگن کو آج کے دور میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا ایکسٹیسی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رنگا رنگ ٹیبلٹ کی تیاری کا ابتدائی نسخہ جرمن دوا ساز ادارے مَیرک نے تیار کیا تھا۔ 1912ء میں اس ادارے نے ایک بے رنگ تیل کو ایم ڈی ایم اے کے نام سے پیٹنٹ کروایا تھا۔ اُس دور میں کیمیا دانوں نے اس مادے کو کاروباری مقاصد کے لیے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/epa/Barbara Walton
جرمن کیمیا دانوں کے کارناموں کی باز گشت آج بھی
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2013ء میں دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار انسان غیر قانونی منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ قانونی نشے الکوحل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہیں: عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2012ء کے لیے اندازوں کے مطابق 5.9 فیصد یعنی تقریباً 3.3 ملین اموات الکوحل کے استعمال کا نتیجہ تھیں۔