1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا میں قریب المرگ افراد کی ناقص دیکھ بھال

15 جولائی 2010

ایشیائی ممالک میں قریب المرگ شہریوں کی مناسب دیکھ کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ باوجود اس کہ اس خطے میں لوگوں کا معیار زندگی بلند ہورہا ہے یہ افسوس ناک حقیقت بدھ کو جاری ہونے والی ایک جائزے میں سامنے آئی ہے۔

تصویر: picture alliance/dpa

EIU یا اکنامکس انٹیلیجنس یونٹ کی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے دنیا کی آبادی میں بوڑھے انسانوں کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے آخری عمر میں علاج اور دیکھ بھال کی سہولیات کی فراہمی کی ضرورت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتیں اور دوسرے شعبے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ان ضروریات کو مناسب وقت پر پورا کیا جاسکے۔

سنگاپور میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پرکام کرنے والی ایک تنظیم لین فاؤنڈیشن کے مطابق جاپان جیسا اقتصادی طور پر بہت مضوط ملک دنیا میں موت کی کوالٹی کے انڈیکس میں چالیس ملکوں کی فہرست میں تیئسویں نمبر پر ہے۔ بھارت اس فہرست میں آخری یعنی چالیسویں پوزیشن پر ہے۔ چین، ملیشیا، اور جنوبی کوریا بھی قریب المرگ لوگوں کی دیکھ بھال کی صورت حال کا جائزہ لینے والی اس لسٹ میں آخری دس ملکوں میں آتے ہیں۔

سن 2030 ء تک دنیا میں 65 سال سے زیادہ عمر والے انسانوں کی تعداد ایک بلین تک پہنچ جائے گیتصویر: UNI

اس کے علاوہ یوگنڈا، برازیل، میکسیکو، روس، ترکی، پرتگال اور جنوبی افریقہ میں بھی ضعیف اور قریب المرگ افراد کی صحیع دیکھ بھال کے لئے ان کی حکومتوں کی طرف سے کافی سہولیات مہیا نہی‍ں ہیں۔

ٹونی نش جوEIU کے کلائنٹ ریسرچ سینٹر کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ چین اور بھارت جیسے بہت بڑی آبادیوں والے ملکوں میں یہ کام بہت مشکل ہے۔ انھوں نے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ ممالک تیزی سے ترقی کی راہ پرگامزن ہیں لیکن آبادی کی اتنی کثیر تعداد تک سہولیات اور وسائل کی فراہمی کے لئے کافی زیادہ وقت درکار ہے ۔

اپنے شہریوں کو ان کی زندگی کے آخری دنوں میں آسانیاں اور بہتر دیکھ بھال کی فراہمی میں برطانیہ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ برطانیہ کے بعد آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، آئرلینڈ، آسٹریا، ہالینڈ، جرمنی، کینیڈا اور امریکا وہ ممالک ہیں، جن میں قریب المرگ مریضوں کو بہتر سہولیات مہیا کی جاتیں ہیں۔

چین، ملیشیا، اور جنوبی کوریا قریب المرگ لوگوں کی دیکھ بھال کی لسٹ میں آخری دس ملکوں میں آتے ہیںتصویر: picture-alliance / dpa

اس جائزے کے مطابق دنیا کے بہت سے ملکوں کے ہیلتھ کیئر سسٹمز یا صحت کے نظام میں مرض میں تخفیف کرنے والی دوائیں اور پین کلرزکی فراہمی کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔ جس کی بڑی وجہ ان ملکوں میں تربیت یافتہ طبی عملے کی کمی اور ان ادویات کا مستحق لوگوں تک پہنچانے کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔

اس سلسلے می‍ں دوسرا بڑا چیلنج ان معاشروں میں لوگوں کے اذہان میں موت سے پہلے کی تکلیف کے بارے میں پائے جانے والے تصورات میں تبدیلی لانا ہے۔ جو کہ بعض اوقات Palliative care یا درد کم کرنے والی دواؤں کے استعمال کا راستہ روکتی ہیں۔

اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ سن 2030 ء تک دنیا میں 65 سال سے زیادہ عمر والے انسانوں کی تعداد ایک بلین تک پہنچ جائے گی۔ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بوڑھے لوگوں کی تعداد میں اس سے بھی زیادہ تیزی سے اضافہ ہوگا۔ جو کہ ان ممالک میں حکومتوں اور عوامی سہولیت فراہم کرنے والے اداروں یا پرووائڈرز کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

آج کل پوری دنیا میں یہ آوازیں بلند ہورہیں ہیں کہ قبل ازمرگ مریضوں کی بہتر دیکھ بھال کو قومی اور بین الاقوامی پالیسی میں ایک انسان کے بنیادی حق کے طور پر جگہ ملنی چاہئے، لیکن اس حالیہ جائزے کے مطابق اگر اس مطالبے کو یہ سٹیٹس مل بھی گیا، پھر بھی یہ بہت سے لوگوں کے لئے صرف کاغذ پر درج ایک معاہدہ ہی رہے گا، جس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

رپورٹ : بریخنا صابر

ادارت : کشور مصطفی

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں