ایغور اقلیتی برادری کی حمایت میں امریکی کانگریس میں بل منظور
4 دسمبر 2019
امریکی کانگریس میں بڑی اکثریت سے ایک بل کو منظور کر لیا گیا ہے، جس میں چینی صوبے سنکیانگ میں ایغوروں کے خلاف ہونے والی ’زیادتیوں‘ کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ بیجنگ نے اسے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
اشتہار
امریکی ایوان نمائندگان میں منظور ہونے والے اس بل میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے لیے چین کے بعض سینیئر سرکاری حکام اور کمیونسٹ پارٹی کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ابھی اس بل کی سینیٹ سے منظوری اور اس پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط ہونا باقی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی کانگریس میں پیش کیے جانے والے ’’دی ایغور ایکٹ‘‘ 2019ء میں سنکیانگ صوبے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اس کے حق میں 407 ارکان نے ووٹ ڈالے جبکہ ریپبلکن رکن تھامس میسی نے صرف اس کی مخالفت کی۔
اس بل میں صوبے سنکیانک میں بسنے والی ایغور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے ان مراکز کو بند کرنے کے لیے کہا گیا ہے، جہاں گرفتار شدہ افراد کی ذہن سازی اور انہیں دوبارہ تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسے مراکز میں ان افراد کے ساتھ زیادتیاں بھی ہوتی ہیں۔
بل میں تقریباً دس لاکھ ایغور اور قزاق اقلیتی برادری کے لوگوں کو حراست میں رکھنے کی مذمت کی گئی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ پر اس بات کے لیے زور دیا گیا ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چوانگو سمیت ان افراد پر پابندیاں عائد کی جائیں، جو ایغوروں سے متعلق پالیسی بنانے میں ملوث رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایف پی کے مطابق اس بل پر ووٹنگ سے قبل کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا، ’’آج ایغور برادری کے انسانی وقار اور انسانی حقوق کو بیجنگ کی ظالمانہ کارروائیوں سے خطرہ لاحق ہے۔ ایغوروں کے خلاف بیجنگ کی انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کے جواب میں کانگریس ایک اہم قدم اٹھا رہی ہے۔‘‘
پیلوسی نے چین کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا،’’امریکا سب دیکھ رہا ہے۔‘‘انہوں نے چین پر بڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی کرنے، انہیں قید تنہائی میں رکھنے، ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے اور زبردستی نسبندی کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔
ادھر چین نے اس بل کے خلاف اپنے سخت رد عمل میں اسے اپنے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا،’’امریکا بیجنگ کو ان کوششوں کو نظر انداز کر رہا ہے، جو وہ سنکیانگ میں شدت پسندی کے خلاف اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے اٹھا رہا ہے۔‘‘
امریکی کانگریس میں یہ بل ایک ایسے وقت منظور کیا گیا ہے، جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی امور اور ہانگ کانگ کے معاملے پر حالات پہلے ہی سے کشیدہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی بحالی اورجمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہرین کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک قانون پر دستحط کیے تھے۔ چین نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا تھا اور جوابی کارروائی کرتے ہوئے بعض امریکی غیر سرکاری تنظیموں پر پابندیاں عائد کر دی تھی۔
انسانی حقوق کی علمبرادر تنظیموں اور بعض عینی شاہدین کا الزام ہے کہ چین ایغور مسلمانوں کو ان کی روایتی اسلامی تہذیب و تمدن سے درو کر کے انہیں اکثریتی ہان کلچر میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ اسی مقصد سے اس نے خصوصی تربیتی مراکز قائم کیے ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر مقامی ایغور مسلمانوں کو حراست میں رکھا جاتا ہے۔
چین کا موقف ہے کہ سنکیانگ میں ایغور مسلم برادری سمیت تمام افراد کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں ایغور برادری آباد ہے۔ ان کا شمار ملک کی مسلم اقلیتوں میں ہوتا ہے اور صوبہ سنکیانگ میں اُن کی تقریباً 45 فیصد آبادی ہے۔ حکومتی سطح پر سنکیانگ کا شمار تبت کی طرح خود مختار علاقے کے طور پر ہوتا ہے۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔