ایغور مسلمانوں کی حق تلفیاں: فوکس ویگن کی اپنے دفاع کی کوشش
27 نومبر 2019
چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی نفی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے تناظر میں جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن نے وہاں اپنی کاروباری موجودگی اور چین کے ساتھ اقتصادی تعاون کا دفاع کیا ہے۔
اشتہار
یورپ اور دنیا کے بہت بڑے کار ساز اداروں میں شمار ہونے والی جرمن کمپنی فوکس ویگن کو اس وقت اس لیے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ چینی حکومت کے ساتھ مل کر صوبے سنکیانگ میں اپنا کام جاری رکھنا چاہتی ہے حالانکہ اسی چینی صوبے میں مسلم اقلیتوں کو صوبائی حکام کی طرف سے طرح طرح کی ایسی زیادتیوں کا سامنا ہے، جن کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت بھی کی جا رہی ہے۔
سنکیانگ میں مقامی مسلم اقلیتوں، خاص کر ایغور مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کی انہی خلاف ورزیوں کے باعث اب تک کئی دیگر ممالک کے علاوہ امریکی اور جرمن حکومتیں بھی بیجنگ سے یہ مطالبات کر چکی ہیں کہ سنکیانگ میں مقامی آبادی کے مسلمہ اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔
فوکس ویگن کو سنکیانگ کی صورت حال کی وجہ سے دباؤ اور تنقید کا سامنا اس لیے ہے کہ اس جرمن کمپنی نے سنکیانگ کے شہر ارومچی میں اپنا ایک پیداواری یونٹ قائم کر رکھا ہے، جو برسوں سے فعال ہے۔
'خالصتاﹰ اقتصادی وجوہات‘
اس بارے میں فوکس ویگن کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کار ساز ادارے نے ارومچی میں اپنا ایک پیداواری یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ 2012ء میں کیا تھا، جو خالصتاﹰ اقتصادی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق، ''فوکس ویگن کو امید ہے کہ آئندہ برسوں میں اس خطے میں اقتصادی ترقی کی شرح اور زیادہ ہو جائے گی۔‘‘
انسانی حقوق کے علم بردار حلقوں کے لیے فوکس ویگن کا یہ موقف اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ چین کے اس صوبے سے متعلق حال ہی میں منظر عام پر آنے والی بہت سی خفیہ دستاویزات سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ سنکیانگ میں حکام نہ صرف مسلم اقلیتوں کی انتہائی سخت نگرانی کر رہے ہیں بلکہ ان کی سماجی اور نفسیاتی تربیت کے نام پر ایسے لاکھوں اقلیتی چینی مسلمانوں کو طویل عرصے سے حراستی کیمپوں میں بھی رکھا جا رہا ہے۔
فوکس ویگن نے اپنے کاروباری مقاصد اور خود پر عائد ہونے والی انسانی ذمے داریوں کے تناظر میں کہا ہے کہ ارومچی میں اس کمپنی کا پیداواری یونٹ جرمنی اور چین کا ایک مشترکہ اقتصادی منصوبہ ہے، جسے چینی کمپنی ایس اے آئی سی کے ساتھ تعاون سے چلایا جا رہا ہے۔ اس بارے میں فوکس ویگن نے کہا، ''ہمارے لیے اس بات کو تصور کر لینے کی کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے یونٹ کے ملازمین میں سے کسی ایک سے بھی جبری مشقتی کارکنوں کے طور پر کام لیا جا رہا ہے۔‘‘
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
فوکس ویگن پر الزام
فوکس ویگن کمپنی گزشتہ 35 برسوں سے چین میں کاروبار کر رہی ہے۔ یہ کمپنی سنکیانگ میں اپنی صنعتی پیداواری سرگرمیوں کی وجہ سے حال ہی میں ایک اخباری رپورٹ کی وجہ سے خاص طور پر دباؤ میں آ گئی تھی۔
جرمن اخبار 'زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ نے اپنی ایک اسپیشل رپورٹ میں لکھا تھا کہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن فوکس ویگن ارومچی میں مالی خسارے کے باوجود اپنا ایک پیدواری یونٹ اب تک اس لیے چلا رہی ہے کہ اسے چینی حکومت کی طرف سے مشرقی چین میں چند زیادہ پرکشش مقامات پر اپنے یونٹ قائم کرنے کی اجازت مل جائے اور اس بارے میں باقاعدہ معاہدے بھی طے پا جائیں۔
فوکس ویگن نے اس اخباری رپورٹ اور اس میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی بھرپور تردید کر دی تھی۔ ارومچی میں فوکس ویگن کے اس پیداواری یونٹ میں سالانہ 50 ہزار گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔
جان شیلٹن (م م / ع س)
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔