ایغور مسلم اقلیت کے حقوق: چین پر مغربی دباؤ کا خیر مقدم
عبدالستار، اسلام آباد
3 اگست 2020
پاکستان میں بسنے والی ایغور مسلم برادری نے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے چینی صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اشتہار
اس برادری نے امید ظاہر کی ہے کہ اس دباؤ کے کمیونسٹ چین کی 'جابرانہ پالیسی‘ پر اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم ان پاکستانیوں نے، جن کی رشتہ داریاں ایغور کمیونٹی میں ہیں یا جنہوں نے چین کے اس صوبے میں شادیاں کر رکھی ہیں، ایسی 'خوش فہمیوں‘ پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایسے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ بیرونی دباؤ بیجنگ کو مشتعل کر سکتا ہے اور وہ سنکیانگ میں مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاون سخت تر بھی کر سکتا ہے۔
مغربی میڈیا چین پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے ایک ملین سے زائد ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے، جہاں وہ ان کی ذہن سازی کرتا ہے اور ان اقلیتی باشندوں سے جبری مشقت بھی لی جاتی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا جزوی طور پر یہ دعویٰ بھی ہے کہ چین ایغور مسلم اقلیت کی ثقافت، تہذیب اور رسم و رواج کو کچل رہا ہے اور اس نے اپنے ہاں ان اقلیتوں پر مذہبی اور سماجی پابندیاں بھی لگا رکھی ہیں۔
حالیہ دنوں میں امریکی انتظامیہ نے اس مسئلے کو بھر پور انداز میں اٹھایا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سمیت کئی حکومتی اہلکار سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو ہدف تنقید بنا چکے ہیں۔ تاہم بیجنگ ان تمام دعووں کی سختی سے تردید کرتا ہے اور چینی حکام کا کہنا ہے کہ وہ سنکیانگ کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں اور وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے اشتراکی نظام حکومت والے اس ملک میں ایغور اور دوسری مسلم قومیتوں کا معیار زندگی بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔ بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے سخت اقدامات صرف شدت پسندوں کے خلاف کیے ہیں، جنہوں نے کچھ برس پہلے وہاں نہ صرف دہشت گردانہ کارروائیاں کیں بلکہ چین کے ریاستی مفادات کو بھی نقصان پہنچایا۔
پاکستان میں ایغور برادری کا موقف
پاکستان میں بسنے والی ایغور برادری کا دعویٰ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی تنقید نے چینی حکمرانوں کو پریشان کر دیا ہے۔ عمر ایغور ٹرسٹ کے سربراہ عمر ایغور نے چین پر مغربی تنقید کے تنقید کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکی اقدامات پر پاکستان میں چینی سفارت خانہ اور بیجنگ میں ملکی حکام دونوں ناراض ہیں۔ مسلم دنیا نے تو ہماری آواز سنی نہیں۔ سعودی عرب سمیت تمام ممالک نے سنکیانگ میں ہونے والے مظالم کو نظر انداز کیا ہے۔ لیکن ہمیں خوشی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ہماری آواز سنی۔ کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک بھی اس ظلم و ستم کے خلاف بول رہے ہیں۔ میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ہمیں چینی ظلم و ستم سے نجات دلائیں۔‘‘
عمر ایغور کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کے ستر افراد کا کچھ پتا نہیں کہ انہیں چینی حکام نے کہاں رکھا ہوا ہے، ''ہمارے نو رشتہ دار سن 2016ء میں والدہ کی وفات پر تعزیت کرنے آئے تھے۔ اس کے بعد سے ان کا کچھ پتا نہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے خاندان کے درجنوں افراد کو اٹھا لیا گیا، اور انہیں حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ اگر ہم وہاں کسی کو کوئی فون کال کریں، تو اگلے دن وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ ہمارے لیے تو اس ظلم و ستم کے خلاف ٹرمپ ہمارے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔‘‘
پاکستان میں سینکڑوں ایغور خاندان آباد
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں ایغور خاندان آباد ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد راولپنڈی میں مقیم ہے، جب کہ گلگت بلتستان، لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں بھی اس برادری کے سینکڑوں افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے اکثریت پاکستانی شہریت حاصل کر چکی ہے لیکن وہ اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے آج بھی کوشاں ہیں۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والےاڑتیس سالہ حسن ترکستانی، جو گلگت بلتستان اور راولپنڈی میں سنکیانگ کی روایتی کھانوں کے ہوٹل چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی، بھابھی اور ان کے بچوں سمیت درجنوں افراد کو چینی حکام نے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں ایغور باشندوں کو حراستی مراکز میں رکھا جا رہا ہے۔ میرے رشتہ داروں کو اس لیے اٹھایا گیا کہ ان میں سے کچھ ماضی میں حج کے لیے سعودی عرب گئے تھے اور کچھ نے دیگر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے ترکی اور پاکستان کے سفر کیے تھے۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ پر امن طریقے سے اپنے مذہبی فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
حسن ترکستانی کا کہنا تھا کہ مغرب کی طرف سے آواز اٹھائی جانا اچھا قدم ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، ''میرے خیال میں امریکا اور دوسرے ممالک کو چین پر معاشی اور سفری پابندیاں لگانا چاہییں۔ جب چین کو معاشی نقصان ہو گا اور چینی باشندوں کو سفر کی دشواریاں پیش آئیں گی، تو پھر بیجنگ کوسنکیانگ سے متعلق اپنا رویہ بہتر بنانا ہی پڑے گا۔‘‘
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
ایغور خواتین سے شادیاں کرنے والے پاکستانی
پاکستان کا شمالی علاقہ گلگت بلتستان تاریخی طور پرسنکیانگ کے قریب رہا ہے اور اس علاقے کے درجنوں افراد نے سنکیانگ میں ایغور خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں۔ ایسے ہی افراد میں اکتالیس سالہ تاجر ابرار علی بھی شامل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چین بیرونی مداخلت کو سخت نا پسند کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ''دنیا کو معلوم ہے کہ امریکا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی باتیں کیوں کر رہا ہے۔ مسئلہ سنکیانگ کا نہیں بلکہ چین اور امریکا کی تجارتی جنگ کا ہے۔ میرے خیال میں امریکی مداخلت سے چینی مسلمانوں کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور چین سنکیانگ میں کریک ڈاون سخت تر کر سکتا ہے۔‘‘
ابرار علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری بیوی بھی سنکیانگ میں ہے۔ اس کے رشتہ داروں کو بھی چینی حکام نے حراست میں لے لیا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ گزشتہ چند برسوں میں چین کی پالیسی کچھ نرم ہوئی ہے۔ چینی صدر نے بھی اس پالیسی کو نرم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس لیے اب اگر بیرونی مداخلت ہوئی، تو چین زیادہ سختی کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایغور مسلمانوں کو کسی مداخلت کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔‘‘
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔