پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور کرنسی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات میں تیزی آگئی ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس حوالے سے ایک سیل بھی قائم کر دیا ہے۔
اشتہار
ایف اے ٹے ایف نامی اس سیل کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ کرنسی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے لیے کی جانے والی مالی معاونت، جو عموما منی لانڈرنگ کے ذریعے ہی ہوتی ہے، کو روکے۔ تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ اس مالی معاونت کو روکنے کے لیے صرف بیرونی دنیا سے آنے والے پیسے کو ہی روکنا کافی نہیں ہے۔
واضح رہے پاکستان پر سخت بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور کرنسی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ حکومت نے کرنسی اسمگلنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے کچھ گرفتاریاں بھی کی ہیں۔
اس سیل کے مقاصد کے حوالے سے ایف بی آر کے ترجمان ڈاکڑ حامد سرور عتیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایف اے ٹی ایف نے چالیس سے زائد شرائط یا پوائنٹس پاکستان سمیت کئی ممالک کو بتائے ہیں اور ہم اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے، کسٹم انٹیلیجنس اور دیگر متعلقہ اداروں سے مل کران شرائط پر کام کر رہے ہیں تاکہ اکتوبر کی ڈیڈ لائن سے پہلے ان شرائط پر پیش رفت ہو سکے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے پاس ان شرائط کا کوئی بیس سے پچیس فیصد حصہ ہے، ''اس حصے پر ہمیں کام کرنا ہے جب کہ کئی اور معاملات میں اسٹیٹ بینک اور دیگر ادارے کام کر رہے ہیں۔‘‘
اسلام آباد پر دباؤ ہے کہ وہ اکتوبرکی ڈیڈ لائن سے پہلے دہشت گردی کی مالی معاونت، جو منی لانڈرنگ اور دوسرے ذرائع سے ہوتی ہے، کو روکے اور اس کے علاوہ کرنسی اسمگلنگ کی روک تھام کو بھی یقینی بنائے جو ممکنہ طور پر دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ایف بی آر کے علاوہ اسٹیٹ بینک بھی ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایف اے ٹی ایف کی جو شرائط بینکنگ سیکٹر کے حوالے سے ہیں، ہم ان پر کام کر رہے ہیں۔ کچھ اقدامات لیے جا چکے ہیں۔ کچھ پائپ لائن میں ہیں جب کہ کچھ پر آنے والے دنوں میں کام ہوگا۔‘‘
’گرے لسٹ‘ کے بعد ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالے جانے کا خطرہ بھی
01:03
پاکستان سے سفر کرنے والا مسافر اس وقت ملک سے ایک سفر میں دس ہزار ڈالر تک اپنے ہمراہ لے جا سکتا ہے جب کہ ملک کے اندر بیرونی کرنسی لانے کی کوئی حد نہیں۔ گو کہ جس ملک سے کرنسی لائی جاتی ہے، وہ کرنسی لے جانے کی حد مقرر کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ اگر ایک شخص بار بار دس ہزار ڈالرز ملک سے باہر لے کر جاتا ہے تو اسے پوچھا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے اور اس کی انکم کے ذرائع کیا ہیں۔ اب ایف آئی آئے اور کسٹم انٹیلیجنس مسافر سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔ جب کہ انکم ٹیکس والے بھی ایسے مسافروں پر نظر رکھیں گے۔ اس کے علاوہ جو مسافر اپنی رقم کو صیح سے ظاہر نہیں کرتے، ان کے لیے ایسی مشینیں لائی جارہی ہیں کہ جس کی بدولت ایئر پورٹ پر یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ کوئی شخص چھپا کر کتنی کرنسی لے کر جارہا ہے۔‘‘
اس افسر نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ سرحدوں پر بھی نگرانی سخت کی جارہی ہے۔''سرحدوں سے کرنسی کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ سمندری حدود میں بھی سختی کی جائے گی اور بارڈ پر بھی سختی کی جائے گی۔ اس حوالے سے متعلقہ اداروں میں تعاون کو بڑھایا جارہا ہے۔‘‘
تاہم ناقدین کے خیال میں دہشت گردی کی مالی معاونت کا ایک بڑا ذریعہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ ملک کے اندر بھی سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ احسن رضا کے مطابق، ''ماضی میں یہ مناظر دیکھنے میں عام تھے کہ کسی کالعدم تنظیم کے لیے کھانا کسی ایک تاجر نے دے دیا اور کرڑوں روپے کے جلسے یا کسی اور پروگرام کا خرچہ کسی اور تاجر یا صنعت کار نے اٹھا لیا۔ حکومت کو ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ صرف کرنسی اسمگلنگ کو روکنے سے ہی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘
تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر سطح پر ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے اقدامات کیے جار ہے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے ایک افسر نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں جماعت الدعوہ اور دوسری تنظیموں کے جگہ جگہ چندے کے ڈبے نظر آتے تھے۔ اب آپ پورے ملک میں جائیں اور مجھے بتائیں کہ ایسے ڈبے نظر آرہے ہیں۔ ان کے مدرسے اور دیگر ادارے بھی حکومتی قبضے میں لے لیے گئے ہیں کیونکہ ہم ہر حال میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر کوئی رسک نہیں لیا جا سکتا۔‘‘
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔