شام میں ایف سولہ طیارے کی تباہی کے بعد اسرائیلی جنگی طیاروں نے شام میں شدید بمباری کی ہے۔ اس تازہ کشیدگی کے بعد روس کا کہنا ہے کہ فریقین صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔
اشتہار
اسرائیلی حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ شام میں کارروائی کے دوران تباہ ہونے والے اسرائیلی جنگی طیارے کو شامی فوج نے ہی نشانہ بنایا تھا۔ ادھر شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملیشیا گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ ان اسرائیلی حملوں کے ‘سنگین نتائج‘ برآمد ہوں گے۔
دمشق حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی افواج نے یہ طیارہ مار گرایا۔ ادھر اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز شمالی اسرائیل میں گر کر تباہ ہونے والے لڑاکا طیارے کو شامی میزائل کے ذریعے ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ طیارہ شام میں اپنا مشن انجام دینے کے بعد واپس جا رہا تھا، جب سے مار گرایا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسرائیلی دفاعی عہدیدار کا نام ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ اسرائیل کے مطابق ایف سولہ لڑاکا طیارے کو طیارہ شکن میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ طیارہ شامی علاقے میں ایرانی عسکری تنصیبات پر حملے کے بعد واپس جا رہا تھا۔
شام میں اسرائیلی فضائیہ کی تباہی کو شام جنگ میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ نے شام میں شروع ہونے والے بحران کے بعد سن 2013 سے متعدد مرتبہ اسرائیل میں ایران اور اس کے اتحادی حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ شام پر حملے کے دوران کسی اسرائیلی جنگی طیارے کو اس طرح تباہ کیا گیا ہو۔
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
10 تصاویر1 | 10
اسرائیلی فوج کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ یہ تازہ کارروائی دراصل شام میں ایرانی ڈرون مشن کے خلاف سر انجام دی گئی۔ تاہم شامی حکومت نے ایسی خبروں کو مسترد کر دیا ہے کہ کوئی ڈرون طیارہ اسرائیلی سرحدی حدود میں داخل ہوا۔ ایک بیان کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے حمص کے صحرائی علاقے میں واقع ایک ڈرون سینٹر کو نشانہ بنایا۔
بتایا گیا ہے کہ اس ایئر بیس میں ڈرون طیارے دراصل اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس بیان میں خبردار کیا گیا کہ اس طرح کے ’دہشت گردانہ اعمال‘ کے جواب میں اسرائیل کو سخت اور شدید ردعمل کا سامنا ہو گا۔
ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہوئے ایک بیان میں اسرائیل کے اس دعویٰ کو مضحکہ خیز قرار دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے نتیجے میں شام میں ایک ایرانی ڈرون مار گرایا ہے۔
ادھر اسرائیلی فوج کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ خطے میں تناؤ بڑھانے کے حق میں نہیں ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ دفاعی کارورائی خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف کی گئی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ہفتے کے دن شام میں بارہ مختلف حملے کیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کارروائی میں شام میں ایرانی عسکری اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
قبل ازیں خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے دس فروری بروز ہفتہ بتایا ہے کہ ملکی فضائیہ نے شام میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے دوران اسرائیلی فضائیہ کا ایک ایف سولہ طیارہ تباہ ہو گیا تھا۔ اس تازہ کشیدگی پر روس نے فریقین سے کہا ہے کہ وہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔