’ایف سولہ طیارے استعمال کرنے کے معاملے کی تحقیق کر رہے ہیں‘
3 مارچ 2019
امریکا یہ جاننے کی کوشش میں ہے کہ آیا پاکستانی فضائیہ نے بھارتی جنگی طیارہ گرانے کے لیے امریکی ساختہ ایف سولہ طیارے کا استعمال تو نہیں کیا۔ یہ بات اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے نے آج اتوار کے دن بتائی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستان میں قائم امریکی سفارت خانے کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن حکومت یہ ’معلومات حاصل‘ کرنے کی کوشش میں ہے کہ پاکستانی ایئر فورس نے بھارتی جنگی طیارہ گرانے کی خاطر کون سے جنگی طیارے استعمال کیے تھے۔
اگر پاکستان نے اس مقصد کی خاطر امریکی ساختہ ایف سولہ طیارے استعمال کیے ہیں تو خدشہ ہے کہ یہ امریکا اور پاکستان کے مابین ان طیاروں کی فروخت کی ڈیل کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی جنگی جہاز کو گرانے کی خاطر ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کیے۔
اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے آج اتوار تین مارچ کو پاکستانی موقف کے تناظر میں روئٹرز کو بتایا، ’’ہم تمام معلومات سے باخبر ہیں اور اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم، دفاعی سازوسامان کے غلط استعمال کے تمام الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں‘‘۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا جب عسکری سازوسامان فروخت کرتا ہے تو اس سلسلے میں کیے جانے والے معاہدوں میں کچھ پابندیاں بھی لاگو کی جاتی ہیں کہ اس ساز و سامان کو کس طرح اور کن حالات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد حکومت نے بھارتی طیارہ مار گرانے کے عمل کو دفاعی کارروائی قرار دیا ہے کیونکہ اس کے مطابق یہ بھارتی طیارہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوا تھا۔
ستائیس فروری کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں گر کے تباہ ہونے والے اس بھارتی طیارے کے پائلٹ، ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے ایک حکم نامے کے بعد انہیں واپس بھارت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔