اٹلی نے عالمی دباؤ کے بعد نجی ملکیت والے امدادی جرمن جہاز ’ایلان کردی‘ میں پھنسے مہاجرین کو نکال کر دوسرے جہاز میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
اٹلی کی نقل و حمل کی وزارت کے حکام کا کہنا ہے کہ کھچا کھچ بھرے امدادی جہاز ’ایلان کردی‘ میں موجود مہاجرین کو دوسرے جہاز میں منتقل کیا جائے گا اور کورونا وائرس کے پیش نظر انہیں قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔
اس جہاز پر موجود مہاجرین کے متعلق کئی روز تک تذبذب میں رہنے کے بعد عالمی دباؤ کے پیش نظر اٹلی نے بالآخر یہ فیصلہ کیا۔ حکام نے جہاز میں سوار مہاجرین کو اپنی سر زمین پر اترنے کی اجازت دینے کے بجائے انہیں دوسرے جہاز میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں اطالوی محکمہ صحت اور ریڈکراس سے وابستہ ملازمین ان کی جانچ کر یں گے۔ اس کے بعد مہاجرین کو ایک دوسرے جہاز میں قرنطینہ کر دیا جائے گا۔
اطالوی وزارت ٹرانسپورٹ کے مطابق سسلی کے ساحل پر تعینات کوسٹ گارڈ اس آپریشن میں مدد کریں گے۔ لیکن حکام نے یہ نہیں بتایا کا ان مہاجرین کو دوسرے جہاز میں کتنے دنوں کے لیے قرنطینہ کیا جائیگا۔ گزشتہ ہفتے جرمن جہاز ’ ایلان کردی‘ نے لیبیا کے ساحل سے چھوٹی کشتیوں میں سوار 150 پناہ گزینوں کو بچایا تھا جس میں سے ایک شخص کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت تھی اس لیے جہاز کو لامپےڈوسا لے جایا گیا تھا۔ لیکن مالٹا اور اٹلی دونوں جگہوں پر حکام نے کورونا وائرس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جہاز سے کسی کو باہر اترنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
امدادی کشتی ’ایلان کردی‘ جرمنی کی ایک غیر سرکاری امدادی تنظیم ’سی آئی‘ کے ماتحت ہے۔ اسی وجہ سے اٹلی کا اصرار ہے کہ اس جہاز کو اٹلی کے بجائے جرمنی کی بندر گاہ پر لنگر انداز کیا جانا چاہیے تھا۔ ادھر گزشتہ جمعے کو جرمن وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ وہ ان متبادل پر غور کر رہی ہے کہ آیا اس جہاز کو کس بندرگاہ پر روکا جائے۔ جہاز میں موجود لوگوں کی دن بدن بگڑتی صورتحال کے پیش نظر برلن نے یورپی یونین سے بھی امداد طلب کی تھی اور اٹلی نے جہاز پر کھانے پینے کی اشیا مہیا کی ہیں۔
ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Mitchell
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aleppo Media Center
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
10 تصاویر1 | 10
اتوار بارہ اپریل کو اٹلی کی وزارت نقل و حمل نے ایک بیان میں کہا کہ چونکہ ’ایلان کردی‘ جہاز جس پرچم کے تحت آپریٹ کرتا ہے اس نے اس ملک کو واپس جانے سے منع کردیا اس لیے جہاز میں سوار افراد کو دوسرے جہاز میں منتقل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کو ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا ہے اس لیے مہاجرین کو اٹلی کی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ادھر ایلان کردی جہاز سے وابستہ تنظیم سی آئی نے کے ایک ترجمان گورڈین ایزلر نے اٹلی کے اقدامات کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا،’’اگر اطالوی کوسٹ گارڈ نے ایلان کردی سے لوگوں کو نکال لیا تو یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ ہم اس کے لیے ان کے بہت شکرگزار ہوں گے۔‘‘
اٹلی بحیرہ روم میں امدادی آپریشن چلانے اور پھنسے ہوئے مہاجرین کو اٹلی کے ساحلوں پر چھوڑنے کے لیے سی آئی نامی جرمن تنظیم پر نکتہ چینی بھی کرتا رہا ہے۔ اٹلی نے اس تنظیم سے وابستہ ایک شخص کو گزشتہ موسم گرما میں گرفتار بھی کر لیا تھا۔