1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

ایلون مسک کا سیاست اور ٹیکنالوجی میں بڑھتا ہوا اثر رسوخ

3 نومبر 2024

امریکی ارب پتی اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک اب ڈونلڈ ٹرمپ کے اہم حامی بن چکے ہیں۔ تاہم، تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ طاقت کے حصول کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال جمہوریت کے لیے ایک خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

USA Wahlen I Tesla CEO Elon Musk unterstützt Wahlkampf der Republikaner in Folsom
تصویر: Rachel Wisniewski/REUTERS

کار ساز کمپنی ٹیسلا، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس اور ایرو اسپیس کمپنی اسپیس ایکس سمیت دنیا کی چند نامور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالک ایلون مسک اب سیاست کے میدان میں ایک منجھے ہوئے کھلاڑی کے طور پر ابھرے ہیں۔

نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ایلون مسک نے کھل کر ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو ایلون مسک کو اپنی حکومت میں کوئی اہم ذمہ داری سونپیں گے۔

دنیا کے امیر ترین آدمی کے لیے صرف کاروباری سلطنت چلانا کافی نہیں ہے، اس لیے اب ایلون مسک اپنی کمپنیوں کے ذریعے حاصل کردہ اثر و رسوخ کو دنیا بھر کے سیاسی مباحثوں پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، چاہے وہ برازیل ہو یا جرمنی۔

53 سالہ ایلون مسک کی سیاست میں یہ مداخلت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ چند طاقتور ٹیکنالوجی کمپنیاں اور ان کے سربراہان اب وہ اختیار حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو کبھی حکومتوں کا حق سمجھا جاتا تھا۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائبر پالیسی سینٹر کی فیلو اور "دی ٹیک کوپ: ہاؤ ٹو سیو ڈیموکریسی فرام سلیکون ویلی" کی مصنفہ ماریتجے شاکے کا مانا ہے کہ ایلون مسک جن ٹیکنالوجیز پر کام کر رہے ہیں، وہ نہایت اہم ہیں۔ ان کی کمپنیاں انتہائی بااثر ہیں اور معلومات تک رسائی اور جغرافیائی سیاست کے لحاظ سے کلیدی بھی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے، شاکے، جو ڈچ لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کی سابقہ رکن ہیں، نے کہا کہ ایلون مسک ان کمپنیوں کو صرف انہیں مزید کامیاب بنانے کے لیے  نہیں چلا رہے، بلکہ وہ انہیں اپنی جغرافیائی ایجنڈے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔

ٹائٹل: ایلون مسک انٹرنیٹ تک رسائی کے بادشاہ ہیں؟

05:20

This browser does not support the video element.

خود کو 'معتدل' قرار دینے سے لے کر دائیں بازو کے سخت گیر نظریے تک

جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ایلون مسک نے 1990 کی دہائی کے وسط میں اپنی پہلی کمپنی کی بنیاد رکھی، جس کے بعد انہوں نے کامیاب کاروباری اداروں کا ایک سلسلہ قائم کیا اور اب تک ان کے پاس تقریباً 243 بلین ڈالر (€224 بلین) کے اثاثے ہیں۔

ان کی اسٹارٹ اپز کو بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں تبدیل کرنے کی مہارت نے  اہم ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے پر ان کا کنٹرول بڑھایا ہے اور ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی بتدریج بڑھا ہے۔

آج، امریکی خلائی ادارہ  NASA خلا  میں سیٹیلائٹ بھیجنے کے لیے ایلون مسک کی  کمپنی SpaceX پرانحصار کرتا۔ اس کے علاوہ SpaceX کی ذیلی کمپنی Starlink دنیا کے دور دراز مقامات پر براڈ بینڈ انٹرنیٹ فراہم کرتی ہے جو کہ یوکرین اور غزہ جیسے جنگ زدہ علاقوں میں افواج کے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔

دی وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، ایلون مسک 2022 کے آخر سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پوٹن نے مسک سے درخواست کی کہ وہ تائیوان کے لیے سیٹلائٹ مواصلاتی نظام Starlink کو فعال نہ کریں- یہ چینی صدر شی جن پنگ کی خواہش پر کیا گیا ہے۔

اسی دوران ایلون مسک، جو کبھی خود کو 'معتدل' سمجھتے تھے، اب سخت گیر کنزرویٹو خیالات کے قریب آ گئے ہیں۔ وہ کھل کر بائیں بازو کے نظریات کی مخالفت کر رہے ہیں، جنہیں وہ معاشرے کے مستقبل کے لیے نقصان دہ مانتے ہیں۔

رسم و رواج سے انحراف

جولائی کے وسط میں ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد، ایلون مسک نے کھل کر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا۔ اب نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی تیاریوں کے لیے، مسک کا سیاسی کردار نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔

ایلون مسک ڈوںلڈ ٹرمپ کے ساتھ انتخابی مہم میں شریک تصویر: JIM WATSON/AFP

کیمپین فنانشیل رپورٹ کے مطابق اس سال جولائی سے وسط اکتوبر کے درمیان، ایلون مسک نے ٹرمپ کی حمایت کرنے والے ایک سپر پی اے سی کو تقریباً 119 ملین ڈالر کا چندہ دیا۔

اس ہفتے کے شروع میں انہوں نے سات اہم ریاستوں کے رجسٹرڈ ووٹروں کو ایک پٹیشن پر دستخط کرنے کے لیے نقد انعامات کی پیشکش کر کے توجہ حاصل کی۔ انتخاب کے دن تک ہر روز ایک دستخط کنندہ کو منتخب کر کے ایک ملین ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔

یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ایلون مسک  یہ کوششیں زیادہ رسائی اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ شاکے کا کہنا ہے کہ ایلون مسک ممکنہ طور پر ٹرمپ سے خارجہ پالیسی میں اپنے عمل دخل کو بڑھانے کی بات کریں گے، جو ان کے کاروباری مفادات کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو گا۔

سائبر پالیسی کے ماہر شاکے نے کہا کہ اہم ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی بنیاد پر طاقت کا اس طرح استعمال جمہوریت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ایلون مسک کی سوچ غیر  یقینی ہے اور وہ اپنا موقف راتوں رات بدل سکتے ہیں، ؎؎ جب کوئی ایسا شخص جو اہم مصنوعات اور بنیادی ڈھانچے پر کنٹرول رکھتا ہے، اپنا خیال بدلتا ہے تو اس کے اثرات بھی بڑے ہوتے ہیں۔

جانوش ڈیلکر (ش خ، ش ر)

 

 

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں