ایلپس کے دامن میں بہت خوبصورت جرمن شہر، تدفین کے لیے لاٹری
14 جولائی 2018
جرمنی میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک انتہائی خوبصورت شہر میں آئندہ دفن ہونے والوں کا انتخاب لاٹری کے ذریعے کیا جائے گا۔ فطری حسن سے مالا مال یہ جگہ نازی رہنما اڈولف ہٹلر کا پسندیدہ تعطیلاتی مقام تھی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی ہفتہ چودہ جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوبی جرمن صوبے باویریا میں یہ شہر ایک ایسی سرسبز و شاداب وادی کے کنارے واقع ہے، جہاں سے ایلپس کے پہاڑی سلسلے کا جرمنی میں واقع حصہ شروع ہوتا ہے۔ اس جرمن شہر کا نام ’بَیرشتَیس گاڈن‘ (Berchtesgaden) ہے۔
اس شہر میں انتقال کر جانے والوں کی تدفین کے لیے مقررہ جگہ ایک طویل عرصے سے ناکافی ثابت ہو رہی ہے۔ بہت سے لوگ یہ خواہش کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کی آخری آرام گاہ اسی شہر میں ہونی چاہیے لیکن مقامی حکام جگہ کی کمی کی وجہ سے ایسی بہت سے درخواستیں مجبوراﹰ رد کرتے آئے ہیں۔
اب بلدیاتی حکام نے اعلان کیا ہے کہ اس شہر میں تدفین کے لیے 200 ایسی جگہیں خالی ہو گئی ہیں، جن میں سے 140 باقاعدہ قبروں کی جہگیں ہیں، جن میں مردوں کو دفنایا جا سکے گا جبکہ باقی ماندہ 60 جگہیں ایسی ہیں، جن میں مردوں کے جلائے جانے کے بعد صرف ان کی راکھ والے راکھ دان ہی دفنائے جا سکیں گے۔
’بَیرشتَیس گاڈن‘ کی موجودہ آبادی دو لاکھ اسی ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ وہاں مستقبل میں اپنی تدفین کے لیے جو باشندے ابھی سے درخواستیں دینا چاہتے ہیں، ان میں جرمنی کے دیگر شہروں اور قصبوں کے رہائشی افراد کے علاوہ مقامی باشندوں کو اجازت مل جانے کا امکان بھی کافی زیادہ ہے۔
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔
تصویر: Imago/W. Otto
7 تصاویر1 | 7
تدفین کا موقع بھی منصفانہ
اس شہر میں تدفین کی جگہوں کی یہ الاٹمنٹ درخواست دہندگان میں آئندہ بدھ اٹھارہ جولائی کے روز ہونے والی قرعہ اندازی کے ذریعے کی جائے گی۔ آج ہفتہ چودہ جولائی کی صبح تک کل 200 قبروں کی تخصیص کے لیے قریب 300 افراد درخواستیں دے بھی چکے تھے۔
’بَیرشتَیس گاڈن‘ کی بلدیاتی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار آنٹون کُرس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم چاہتے تھے کہ یہ عمل زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو۔‘‘ اس شہر کے مختلف قبرستانوں میں فی الحال خالی قبریں ریزرو کرانے کی فیس 490 سے لے کر 760 یورو (570 سے لے کر 890 امریکی ڈالر) تک بنتی ہے اور مقامی باشندے یہ قبریں اپنے لیے یا اپنے رشتے داروں کے لیے مخصوص کرا دینے کی درخواستیں دے سکتے ہیں۔
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے پیشہ ور اداروں کی وفاقی تنظیم نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسی صورت حال ہے، جس کا اس تنظیم کے رکن اداروں کو پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا، ایسی صورت حال جس میں طلب رسد سے کہیں زیادہ ہو۔ جرمنی کے اس شہر کے برعکس ملک کے شمال میں واقع شہروں اور قصبوں کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ وہاں مقامی قبرستانوں میں بہت سی قبریں خالی پڑی ہیں۔
نازی جرمنی: ہٹلر دورِ حکومت کے چوٹی کے قائدین
جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے اپنے نظریات، پراپیگنڈے اور جرائم کے ساتھ بیس ویں صدی کی عالمی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئیے دیکھیں کہ اس تحریک میں کلیدی اہمیت کے حامل رہنما کون کون سے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جوزیف گوئبلز (1897-1945)
ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر کے طور پر نازی سوشلسٹوں کا پیغام ’تھرڈ رائش‘ کے ہر شہری تک پہنچانا ایک کٹر سامی دشمن گوئبلز کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ گوئبلز نے پریس کی آزادی پر قدغنیں لگائیں، ہر طرح کے ذرائع ابلاغ، فنون اور معلومات پر حکومتی کنٹرول سخت کر دیا اور ہٹلر کو ’ٹوٹل وار‘ یا ’مکمل جنگ‘ پر اُکسایا۔ گوئبلز نے 1945ء میں اپنے چھ بچوں کو زہر دینے کے بعد اپنی اہلیہ سمیت خود کُشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
اڈولف ہٹلر (1889-1945)
1933ء میں بطور چانسلر برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی جرمن نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) کے قائد کے ہاں سامی دشمن، کمیونسٹ مخالف اور نسل پرستانہ نظریات ترویج پا چکے تھے۔ ہٹلر نے جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں بدلنے کے لیے سیاسی ادارے کمزور کیے، 1939ء تا 1945ء جرمنی کو دوسری عالمی جنگ میں جھونکا، یہودیوں کے قتلِ عام کے عمل کی نگرانی کی اور اپریل 1945ء میں خود کُشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہائنرش ہِملر (1900-1945)
نازیوں کے نیم فوجی دستے ایس ایس (شُٹس شٹافل) کے سربراہ ہِملر نازی جماعت کے اُن ارکان میں سے ایک تھے، جو براہِ راست ہولوکوسٹ (یہودیوں کے قتلِ عام) کے ذمہ دار تھے۔ پولیس کے سربراہ اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی ہِملر نے ’تھرڈ رائش‘ کی تمام سکیورٹی فورسز کو کنٹرول کیا۔ ہِملر نے اُن تمام اذیتی کیمپوں کی تعمیر اور آپریشنز کی نگرانی کی، جہاں چھ ملین سے زائد یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
روڈولف ہَیس (1894-1987)
ہَیس 1920ء میں نازی جماعت میں شامل ہوئے اور 1923ء کی اُس ’بیئر ہال بغاوت‘ میں بھی حصہ لیا، جسے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے نازیوں کی ایک ناکام کوشش کہا جاتا ہے۔ جیل کے دنوں میں ہَیس نے ’مائن کامپف‘ لکھنے میں ہٹلر کی معاونت کی۔ 1941ء میں ہَیس کو ایک امن مشن پر سکاٹ لینڈ جانے پر گرفتار کر لیا گیا، جنگ ختم ہونے پر 1946ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور جیل ہی میں ہَیس کا انتقال ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اڈولف آئش مان (1906-1962)
آئش مان کو بھی یہودیوں کے قتلِ عام کا ایک بڑا منتظم کہا جاتا ہے۔ ’ایس ایس‘ دستے کے لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آئش مان نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو مشرقی یورپ کے نازی اذیتی کیمپوں میں بھیجنے کے عمل کی نگرانی کی۔ جرمنی کی شکست کے بعد آئش مان نے فرار ہو کر پہلے آسٹریا اور پھر ارجنٹائن کا رُخ کیا، جہاں سے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد نے انہیں پکڑا، مقدمہ چلا اور 1962ء میں آئش مان کو پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: AP/dapd
ہیرمان گوئرنگ (1893-1946)
ناکام ’بیئر ہال بغاوت‘ میں شریک گوئرنگ نازیوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جرمنی میں دوسرے طاقتور ترین شخص تھے۔ گوئرنگ نے خفیہ ریاستی پولیس گسٹاپو کی بنیاد رکھی اور ہٹلر کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نا پسند کیے جانے کے باوجود جنگ کے اختتام تک ملکی فضائیہ کی کمان کی۔ نیورمبرگ مقدمات میں گوئرنگ کو سزائے موت سنائی گئی، جس پر عملدرآمد سے ایک رات پہلے گوئرنگ نے خود کُشی کر لی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
ہٹلر کا پسندیدہ تعطیلاتی مقام
’بَیرشتَیس گاڈن‘ کے بارے میں تاریخی حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ گزشتہ صدی کے پہلے نصف حصے میں، جب یہ شہر ابھی ایک قصبہ ہوا کرتا تھا، یہ جگہ نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کی اپنی چھٹیاں گزارنے کے لیے پسندیدہ ترین منزل تھی۔ تب ہٹلر نے اس قصبے کے قریب ہی ‘اوبر زالسبرگ‘ نامی پہاڑ پر ایک مکان بھی خریدا تھا۔
نازیوں کے ’تیسری رائش‘ کہلانے والے دور میں یہ جگہ غیر رسمی طور پر جیسے نازی جرمنی کا ’دوسرا دارالحکومت‘بھی بن گئی تھی کیونکہ تب اڈولف ہٹلر کے علاوہ ہیرمان گوئرنگ، جوزف گوئبلز اور البرٹ شپیئر سمیت بہت سے سرکردہ نازی رہنما یہاں تواتر سے آتے تھے۔
وادی میں اس دور کے قصبے ’بَیرشتَیس گاڈن‘ سے کچھ اوپر ایک پہاڑ پر بنائی گئی ہٹلر کی رہائش گاہ ’عقاب کا نشیمن‘ اس نازی رہنما کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر اس کے لیے بطور تحفہ تعمیر کی گئی تھی۔
م م / ش ح / ڈی پی اے، رچرڈ کونر
ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کے مختلف ایڈیشن
اڈولف ہٹلر کی نفرت انگیز سوانحی عمری اور سیاسی منشور ’مائن کامپف‘ یا ’میری جدوجہد‘ 2016ء سے ایک مرتبہ پھر جرمن کتب خانوں میں فروخت کے لیے دستیاب ہو گی۔
تصویر: Arben Muka
ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ
نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر کے دستخطوں کے ساتھ بدنام زمانہ کتاب ’میری جدوجہد‘ کا ایڈیشن اعلیٰ افسران کو دیا جاتا تھا یا پھر شادی کے تحائف کے طور پر۔ دنیا بھر میں تاریخی کتب جمع کرنے والے کئی ایسے افراد ہیں، جو اس ایڈیشن کی ایک کاپی کے لیے بڑی سے بڑی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عربی ایڈیشن
’میری جدوجہد‘ کا عربی زبان میں ترجمہ 1950ء میں کیا گیا تھا۔ اس ایڈیشن کے پس ورق پر ہی سواستیکا کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/akg-images
’میری جدوجہد‘ فرانسیسی زبان میں
1939ء میں شائع ہونے والے فرانسیسی زبان کے ایڈیشن میں درج ہے کہ ’یہ کتاب ہر فرانسیسی کو پڑھنا چاہیے‘۔ یہ سفارش پہلی عالمی جنگ میں فرانسیسی وزیر جنگ کے فرائض انجام دینے والے مارشل Hubert Lyautey نے کی تھی، جو بعد میں ایک ’نوآبادیاتی منتظم‘ بھی بنے تھے۔ وہ دوسری عالمی جنگ سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ دائیں طرف دکھائی دینے والا ایڈیشن بعد میں شائع ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/Gusman/Leemage /Roby le 14 février 2005.
برطانیہ میں اشاعت
دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر کی کوشش تھی کہ وہ برطانیہ پر قبضہ کر لے تاہم برطانوی افواج کے حوصلوں کے آگے یہ نازی رہنما ناکام رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ میں ماضی کے اس جرمن آمر سے بہت نفرت کی جاتی ہے، لیکن برطانیہ میں ’مائن کامپف‘ کی اشاعت پر لندن حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/photoshot
’میری جدوجہد‘ سرخ رنگ میں
جنگی زمانوں کی شخصیات اور حالات و واقعات سے متعلق یادگاری اشیاء میں کسی اور ملک کے شہریوں کو اتنی زیادہ دلچسپی نہیں جتنی کہ اس حوالے سے یادگاری اشیاء جمع کرنے والے امریکیوں کو ہے۔ امریکا کے مقابلے میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جہاں ’مائن کامپف‘ کی طلب اتنی زیادہ ہو۔ خصوصی ایڈیشنز کی نیلامی میں وہاں ایک کاپی کی بولی 35 ہزار ڈالر سے شروع ہو سکتی ہے۔
تصویر: F. J. Brown/AFP/Getty Images
ہٹلر افغانستان میں
افغانستان میں سڑک پر لوگ ’میری جدوجہد‘ کھلے عام فروخت کرتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق یہ عمل غیر قانونی نہیں ہے۔ وہاں نازی دور کے پراپیگنڈا پوسٹر بھی بکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سربیا میں نازی آمر کی کتاب
سربیا کے دارالحکومت میں اڈولف ہٹلر کی کتاب ’میری جدوجہد‘ 2013ء میں ایک کتاب میلے میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھی۔ تاہم اس ایڈیشن میں تبصرے بھی شامل تھے۔
تصویر: DW/N. Velickovic
ہٹلر کتب خانوں کی کھڑکیوں میں
البانیہ کے دارالحکومت تیرانہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے آپ کی آنکھیں ہٹلر کی آنکھوں سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ البانیا کا دارالحکومت غالباﹰ دنیا کا ایسا واحد شہر ہے، جہاں ہٹلر کی کتاب ’مائن کامپف‘ کی جلدیں شیشے کی الماریوں میں یوں کھلے عام رکھی ہوتی ہیں کہ وہ نزدیک سے گزرنے والوں کو دیکھتی رہتی ہیں۔