ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں مسافر ٹرین الٹ گئی، تین افراد ہلاک
3 جون 2022
جنوبی جرمنی میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں ایک مسافر ریل گاڑی کے پٹڑی سے اتر جانے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ یہ ریل گاڑی وفاقی صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ جا رہی تھی۔
اشتہار
باویریا میں حکام نے بتایا کہ یہ مسافر ریل گاڑی اب تک غیر واضح وجوہات کی بنا پر جمعہ تین جون کی دوپہر بُرگرائن کے مقام پر پٹڑی سے اتر گئی۔ وفاقی جرمن پولیس کے مطابق حادثے کی جگہ ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں واقع تعطیلاتی اور اسکیئنگ کے لیے مشہور مقام گارمِش پارٹن کِرشن سے زیادہ دور نہیں۔
تین بوگیاں الٹ گئیں
حادثے کے نتیجے میں ٹرین کی تین بوگیاں پٹڑی سے اتر کر جزوی طور پر الٹ گئیں اور ان میں پھنسے ہوئے کئی مسافروں کو امدادی کارکنوں نے کھڑکیوں سے باہر نکالا۔ گارمِش پارٹن کِرشن میں لوکل گورنمنٹ نے بھی کم از کم تین مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں بتائی گئی ہے۔
یہ حادثہ جس علاقے میں پیش آیا، وہ ایلپس کے پہاڑی خطے میں جرمنی اور آسٹریا کے درمیان قومی سرحد کے قریب ہی واقع ہے۔ یہ واضح نہیں کہ حادثے کے وقت اس علاقائی ریل گاڑی میں کتنے مسافر سوار تھے۔
چھٹیوں سے پہلے تعلیمی سال کا آخری دن
جرمنی میں تعلیمی شعبہ وفاقی کے بجائے صوبائی حکومتوں کی عمل دراری میں کام کرتا ہے اور اسی لیے ہر وفاقی صوبے میں تعلیمی اداروں میں سال کے مختلف حصوں میں چھٹیوں کا نظام الاوقات بھی مختلف ہوتا ہے۔
باویریا میں یہ ٹرین حادثہ آج اس وقت پیش آیا، جب اس جرمن صوبے میں موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے موجودہ تعلیمی سال کا آخری دن تھا۔ اس لیے یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ اس ریل گاڑی کے مسافروں میں بڑی تعداد میں اسکولوں کے طالبا و طالبات بھی شامل تھے۔
جرمنی کے شمال اور آسٹریا میں شدید برف باری
یورپ کے وسطی علاقوں میں سردی کی شدید لہر کے سبب متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ محکمہ موسمیات نے حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ بدترین صورتحال کے لیے تیار رہیں۔
تصویر: Reuters/M. Dalder
جان لیوا موسم
یورپ کے کئی حصوں میں برفانی طوفان نے تباہی مچائی ہے جس کی وجہ سے جرمنی، آسٹریا اور ناروے میں متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ حکام نے اسکیئنگ کرنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ڈھلانوں پر ایوالانچ یا برفشاری سے محتاط رہیں۔ بظاہر پرسکون صورتحال کے باوجود ماہرین موسمیات نے اس سے بھی بدترین صورتحال سے خبردار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
برف سے ڈھکی گاڑیاں
جرمن صوبہ باویریا کے ایک شہر شونگاؤ میں یہ گاڑیاں ایک کار ڈیلر کی ہیں جو برف سے مکمل طور پر ڈھک چکی ہیں۔ جرمنی کے محکمہ موسمیات نے وارننگ جاری کی ہے کہ لوگوں کو برف کے تودے گرنے اور برفباری کے سبب ہونے والے دیگر نقصانات سے خبردار رہنا چاہیے جیسے درختوں کی شاخیں وغیرہ گِرنا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand
ٹریفک کی طویل قطاریں
درخت گرنے کے سبب جرمن صوبہ باویریا کے ایک گاؤن زیگس ڈورف کی ایک شاہراہ پر ٹریفک کو دوسری جانب موڑنا پڑا۔ یہ شہر آسٹریا کی سرحد سے محض 19 کلومیٹر دور واقع ہے۔ میونخ کے قریب ٹریفک کی قریب 15 کلومیٹر طویل قطار لگ گئی کیونکہ فائر فائٹرز اور دیگر کارکن سڑکوں پر گرے درخت صاف کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. März
شاہراہوں کی بندش
آسٹریا کے مرکزی حصے کی ایک سڑک کو گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں دونوں کے لیے بند کرنا پڑا جس کی وجہ برفانی تودے گرنے کا خدشہ تھا۔ حکام نے آسٹریا کے شمالی حصے میں کئی ایک سڑکوں کو بند کر دیا جس کی وجہ سے اسکیئنگ کے لیے ان علاقوں میں موجود ہزاروں افراد وہاں پھنس کر رہ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Expa/M. Huber
برف کا دن
جرمنی کے ایک جنوبی شہر لینگن وانگ میں بچوں نے بھڑکیلے رنگوں کے کاسٹیوم زیب تن کیے ہفتہ پانچ جنوری کو برف سے ڈھکی گلیوں میں مارچ کیا۔ پیر کے دن برفباری کے سبب کئی ایک اسکولوں نے اپنی کلاسیں معطل کر دیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand
عارضی مہلت
اتوار کے روز میونخ کے قریب واقع اس گھر کا مالک راستے سے برف ہٹانے کے لیے اسنوبلوور کا استعمال کر رہا ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق آئندہ چند دنوں میں مزید برفباری کا امکان ہے۔
تصویر: Reuters/M. Dalder
6 تصاویر1 | 6
چھ ہیلی کاپٹر بھی ریسکیو کارروائیوں میں مصروف
گارمِش پارٹن کِرشن سے تعلق رکھنے والے میونخ کی صوبائی پارلیمان کے رکن کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں اس حادثے کے چند گھنٹے بعد بتایا گیا کہ ٹرین پٹڑی سے اتر جانے کے نتیجے میں تین ہلاکتوں کے علاوہ مجموعی طور پر جو 60 افراد زخمی ہوئے، ان میں سے 16 شدید زخمی ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق زخمیوں میں ہر عمر کے مسافر شامل ہیں۔
حادثے کی جگہ پر فائر بریگیڈ کے عملے اور طبی امدادی کارکنوں کے ساتھ ساتھ کم از کم چھ ریسکیو ہیلی کاپٹر بھی زخمیوں کو اس پہاڑی علاقے سے قریبی ہسپتالوں میں پہنچانے میں مصروف ہیں۔
آخری خبریں ملنے تک چند زخمی مسافروں کو ٹرین کی الٹ جانے والی بوگیوں سے نکال کر قریبی ہسپتال پہنچایا جا چکا تھا۔
م م / ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمنی میں دس قدرتی شاہکار
دنیا میں جا بجا قدرتی لینڈ اسکیپ بکھرے ہوئے ہیں اور لوگ ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جرمنی بھی ایسے کئی قدرتی عجوبوں کا حامل ملک ہے۔ ان میں عجیب و غریب چٹانیں، نیلگوں پانی اور پریوں کے دیس جیسے علاقے ہیں۔
جرمن شہر ڈریسڈن سے کچھ ہی دور وادیٴ ایلب میں ریتلے پتھروں والے پہاڑ کوہ پیماؤں اور مہم جو افراد میں بہت مقبول ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی چٹانوں کی ہیئت اور خوبصورت غاروں کی وجہ سے اسے ’سیکسنی میں سوئٹزرلینڈ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سوئٹزرلینڈ میں ایلپس کے پہاڑی سلسلے کی وہ جھلک ہے، جو ان غاروں اور چٹانوں میں دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیلگوں سطح والی جھیل
صوابیہ آلب کے علاقے کی پہاڑی چٹانوں میں گھری سبزی مائل نیلی ’بلاؤٹوپف‘ جھیل قدرت کا ایک انتہائی حسین شاہکار ہے۔ اس جھیل کا پانی مختلف غاروں میں سے بھی گزرتا ہے۔ ان غاروں میں جھیل کے پانی میں کیلشیم کاربونیٹ بھی مل جاتا ہے اور پھر کیمیائی آمیزش والا یہی پانی جب زمین کی سطح تک پہنچتا ہے تو اس جھیل کی بالائی تہہ سورج کی روشنی میں نیلگوں دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/Stella
لیُونے برگ کی ارغوانی جھاڑیاں
ارغوانی جھاڑیاں ہیمبرگ، ہینوور اور بریمن کے درمیانی علاقے میں ایک خاص موسم میں ملتے ہیں۔ اس رنگت کی جھاڑیوں کے عروج کا وقت اگست سے ستمبر تک کا ہوتا ہے۔ اس عرصے میں سارے علاقے میں کروڑوں ارغوانی پھول زمین کو ڈھانپ کر ایک نیا رنگ پیش کرتے ہیں۔ اس علاقے کو محفوظ رکھنے کی خاطر وہاں موٹر گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس علاقے میں گھوڑوں والی بگھیوں میں سورا ہو کر، پیدل یا پھر سائیکل پر جایا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رُیوگن کی کھریا مٹی کی ڈھلوانی چٹانیں
بحیرہ بالٹک کے جزیرے رُیوگن میں کھریا مٹی والی ڈھلوانی چٹانیں بھی قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ ان کی بلندی 120 میٹر یا 393 فٹ تک ہے۔ ان چٹانوں نے کئی مصوروں کو حوصلہ دیا کہ وہ انہیں کینوس پر اتارنے کی کوشش کریں۔ ان میں سے خاص طور پر قدرتی مناظر کے جرمن رومانویت پسند مصور کاسپر ڈیوڈ فریڈرش کو بہت شہرت ملی۔ انہوں نے سن 1818 میں ان چٹانوں کی پینٹنگز بنائی تھیں۔
تصویر: imago/M. Gänßler
ہیلگو لینڈ کی بلند سمندری چٹان
سن 1860 تک سینتالیس میٹر (154 فٹ) اونچی سمندری چٹان ’لانگے آنا‘ (لمبی آنا) ہیلگو لینڈ میں ایک قدرتی چٹانی پل کی طرح تھی۔ سن 1860 میں یہ سمندری اسٹیک پل گر گیا تھا۔ اب بچی کھچی بلند چٹان کو سمندری پانی سے مزید تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ایک بیریئر بنا دیا گیا ہے۔ یہ ہیلگو لینڈ کی ایک اہم شناخت ہے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schwan
ٹری برگ آبشار
دریائے گُوٹ آخ کا پانی 163 میٹر(535 فٹ) کی بلندی سے سات سیڑھیوں کی سی شکل میں نیچے گرتا ہے۔ جرمن علاقے ٹری برگ میں واقع یہ آبشار ملک کی سب سے بلند آبشار ہے۔ گرمی میں برف پگھلنے سے اور بارانی موسم میں اس آبشار کی رونق قابل دید ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker/M. Keller
بحیرہ واڈین
یہ ایک حقیقت ہے کہ بحیرہ واڈین ایک قدرتی عجوبہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے سن 2009 میں عالمی ورثے میں شامل کیا تھا۔ کم بلند سمندری لہروں کی وجہ سے اس کی ساحلی پٹی دس ہزار سے زائد جانوروں اور پودوں کی افزائش کا علاقہ ہے۔
زمین کے اندر سے پھوٹنے والے فوارے کو ’گیزر‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خیال ہے کہ ایسے فوارے صرف آتش فشانی جزیروں کے ملک آئس لینڈ میں موجود ہیں۔ جرمنی کی وسطی وادئ رائن میں واقع شہر آندرناخ میں بھی ایسا ایک ہی گیزر ہے۔ ہر دو گھنٹوں بعد اس شہر کے ایک مقام پر ساٹھ میٹر (193 فٹ) بلند پانی کا فوارہ بلند ہوتا ہے۔ اس کی وجہ زیرِ زمین آتش فشانی پٹیوں میں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/I. Metzner
جادوئی حسن والی غاریں
زال فَیلڈ کی جادوئی غاروں کا اپنا ہی ایک پراسرار حسن ہے۔ یہ تھیورنگیا میں سلیٹ کے پہاڑوں میں سینکڑوں برس قبل کان کنی کی وجہ سے تشکیل پائی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی پہاڑیوں میں سے رسنے والے بلوریں پانی نے ان غاروں کو عجیب و غریب سحر سے نواز دیا۔ سن 1993 میں گینس بک آف ریکارڈز میں انہیں دنیا کی سب سے زیادہ رنگ برنگی غاروں کے طور پر شامل کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/imagebroker
زار کا پھندا نما حلقہ (لُوپ)
جرمن ریاست زارلینڈ میں میٹلاخ کے مقام پر دریائے زار ایک یُو ٹرن لیتا ہے۔ یہ یُو ٹرن یعنی لُوپ یا پھندا نما حلقہ لاکھوں پکچر پوسٹ کارڈز کی زینت بن چکا ہے۔ یہ قدرتی منظر ایک چھوٹے سے گاؤں ’اورشولس‘ میں نظر آتا ہے۔ اسے دیکھنا قدرتی حسن کا ایک ناقابلِ بیان نظارہ قرار دیا جاتا ہے۔