امریکی آن لائن شاپنگ کمپنی ایمازون کے بانی جیف بیزوس نے خلائی تحقیق سے متعلق قائم کردہ کمپنی بلو اوریجن کی تیار کی گئی ایک چاند گاڑی متعارف کروائی ہے۔
اشتہار
جیف بیزوس نے اس گاڑی کو متعارف کروائے جانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’یہ غیرمعمولی گاڑی ہے اور یہ چاند کی جانب جا رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہےکہ ہم چاند کی جانب دوبارہ لوٹیں، مگر اس بار وہاں قیام کے لیے جائیں۔‘‘
اس میں ایک روبوٹک جہاز ہے، جو ایک چھوٹے گھر جیسا ہے، جس میں چار روور تک موجود ہو سکتے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بلو اوریجن مستقبل قریب میں ایک اور خلائی جہاز پر بھی کام کر رہی ہے، جس کے ذریعے انسانوں کو چاند پہنچایا جا سکے گا۔
بیزوس نے مزید کہا، ’’بلومون نامی جہاز چاند کی سطح تک سامان لے جا سکتا ہے، وہاں سامان کو بہ حفاظت ذخیرہ کر سکتا ہے اور حتیٰ کے چاند کی جانب سفر کے دوران سامان کو خود سے جدا بھی کر سکتا ہے۔‘‘
بلو اوریجن کمپنی کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ چاند کے لیے بھیجے جانے والے راکٹ دوبارہ بھی قابل استعمال ہوں گے۔
بیزوس کا کہنا تھا کہ یہ لینڈر اصل میں اس بڑے منصوبے کے حوالے سے فقط ایک ابتدا ہے، جس کے تحت خلا میں بڑا انفراسٹرکچر قائم کیا جائے گا۔ بیزوس نے کہا، ’’خلا میں کسی بھی کام کے لیے لاگت کی زیادہ وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔‘‘
ناسا کی ساٹھویں سالگرہ، تاریخی کامیابیوں پر ایک نظر
امریکی خلائی ادارہ ناسا اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان چھ عشروں میں اس مشہور خلائی ادارے کے توسط سے دنیا نے کچھ ایسے بھی لمحات دیکھے جو یاد گار ٹھہرے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
جب انسان چاند پر پہنچا
اپنے قیام کے صرف گیارہ سال بعد ہی ناسا پہلی بار چاند پر انسانوں کو اتارنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس تصویر میں خلا نورد نیل آرمسٹرانگ اور ایروِن ایلڈرن چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودہ اپریل سن انیس سو ستر کے روز خلائی جہاز ’اپالو تیرہ‘ کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تھا۔ جہاز میں موجود خلا نورد جیمز لوول کو ٹیکساس میں قائم ناسا کے مرکزی دفتر میں اس پیغام کے ساتھ رپورٹ کرنا پڑا تھا، ’’ہیوسٹن ، ہمیں مسئلہ پیش آ گیا تھا۔‘‘ خلانورد خرابی ٹھیک کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آئے تھے۔
اٹھائیس جنوری سن 1986 کو خلا میں بھیجے جانے والی ’دی چیلنجر‘ سپیس شٹل اپالو تیرہ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی۔ یہ خلا کی جانب روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی اور اس میں موجود تمام سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دھماکے کا سبب ’سیل بند‘ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ربر کی مہر تھی جو غیر معمولی سرد درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Weaver
دیرینہ مسابقت ختم ہو گئی
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے درمیان خلا میں بھی جاری سرد جنگ بالآخر چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھانوے کو اس وقت ختم ہو گئی جب امریکا کا ’یونیٹی‘ روس کے ’زاریا‘ اسٹیشنز آپس میں ملا دیے گئے۔ انہی دونوں کو ملا کر ’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ناسا کا اگلا مشن: مریخ پر انسان
مریخ سیارہ ناسا کے تجسس کا اگلا پڑاؤ تھا۔ چھ اگست سن 2012 کو ناسا کی بھیجی گئی موبائل لیبارٹری نے مریخ پر لینڈ کیا اور یہ موبائل لیبارٹری آج بھی مریخ سے سائنسی دریافتیں، سیلفیاں، تصاویر حتی کہ ٹویٹ پیغامات بھیجنے میں مصروف ہے۔ ناسا کا اگلا منصوبہ سن 2030 تک مریخ پر انسانوں کی لینڈنگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JPL-Caltech/MSSS
6 تصاویر1 | 6
مختلف خلائی کمپنیاں اور حکومتیں چاہتی ہیں کہ خلا میں اسٹریٹیجک پوزیشنیوں کو ڈھونڈا جائے، جو بعد میں طویل خلائی سفر کے لیے کارآمد ہوں۔ اسی لیے چاند ان حکومتوں اور خلائی کمپنیوں کے لیے ابتدائی اور قابل توجہ جگہ ہے۔
تاہم چاند پر تحقیق آسان نہیں۔ گزشتہ ماہ ایک اسرائیلی کمپنی نے چاند کی سطح پر ایک خلائی جہاز اتارنے کی کوشش کی تھی، تاہم وہ لینڈنگ کے وقت انجن فیل ہو جانے کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔ دوسری جانب ایلون مُسک کی اسپیس ایکس اور دیگر کمپنیاں بھی قابل تجدید راکٹوں کی تیاری میں مصروف ہیں، تاکہ خلائی سفر کی قیمت کی کم تر کیا جا سکے۔