ایمبریو کی کلوننگ میں تاریخی کامیابی
16 مئی 2013کلوننگ کے ذریعے ایمبریو کی تشکیل کی اس ابتدائی کامیابی کو ایک تاریخی معرکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک معروف طبی ماہر نے کہا ہے کہ یہ تکنیک ابھی مزید ترقی کرے گی اور ممکنہ طور پر توقعات سے زیادہ کارآمد ثابت ہو گی۔
اسٹیم سیلز کو جسم کے کسی بھی سیل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس لیے سائنسدانوں کی کوشش ہے کہ مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے ان اسٹیم سیلز سے ٹشوز پیدا کیے جائیں۔ مثال کے طور پر دماغ کے ٹشوز کی پیوند کاری سے اعصابی عارضے پارکنسنز کا ممکنہ طور پر علاج کیا جا سکے گا اور پینکریاز یا لبلبے کے ٹشوز کو ذیابیطس کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ٹرانسپلانٹ یا پیوند کاری کے عمل میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ جسم ان ٹشوز کو رد کر دے گا، چنانچہ سائنسدانوں کو ایک دوسری ترکیب سوجھی۔ انہوں نے اسٹیم سیلز سے ایسے ٹشوز تیار کیے،جو مریض کے اپنے ڈی این اے کو برداشت کر سکیں۔ اس عمل کے لیے کلوننگ کا طریقہ بروئے کار لایا گیا۔
ان تجربات میں جو تکنیک استعمال کی گئی ہے، اسے ’سومیٹک سیل نیوکلیئر ٹرانسفر‘ کہا جاتا ہے یعنی ایسا عمل، جس میں سیل کے مرکزے کو منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ عمل 1996ء میں پہلی بار ڈولی بھیڑ کی کلوننگ میں بروئے کار لایا گیا تھا۔
اگر کسی مریض کا ڈی این اے ایک انسانی بیضے میں ڈال دیا جائے، جو بعد میں ایک ابتدائی ایمبریو بن جائے تو وہ ایک عملی جینیاتی میچ فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم اس خیال کے ناقدین کی طرف سے چند اخلاقی اعتراضات سامنے آ ئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی ایمبریوز پر تجربات کرنا غیر اخلاقی عمل ہے کیونکہ اسٹیم سیلز کی نشو و نما سے بننے والے انسانی ایمبریوز کو بعد ازاں تلف کر دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اس تکنیک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اسٹیم سیلز ادویات کے شعبے کے لیے امید کی ایک بڑی کرن ہیں اور ان کی مدد سے دل کے دورے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے، زخموں کو مندمل کیا جا سکتا ہے اور حرام مغز میں خرابی کو دور کرنے میں بھی ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔
امریکی محققین نے ایک بالغ انسان کی جلد کے چھ سیلز لیے اور اس کی جینیاتی معلومات ایک عطیہ کیے گئے بیضے میں رکھی گئیں، جس سے ڈی این اے نکال دیا گیا تھا۔ ان بیضوں کو بجلی کے استعمال سے اس عمل پر مائل کیا گیا کہ وہ ایک ایمبریو میں تبدیل ہوں۔ محققین کو بندروں پر آزمائے گئے اس عمل کے انسانوں کے معاملے میں دہرانے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بیضہ تقسیم تو ہونا شروع ہوتا ہے مگر چھ سے بارہ سیلز کی حد سے آگے نہیں جاتا۔
یہ تجربہ امریکا کی اوریگون ہیلتھ اور سائنس یونیورسٹی کے محققین نے کیا ہے۔ اس یونیورسٹی کے ایک ماہر شوکرات میٹالیپوف نے کہا ہے کہ اس تجربے کا سفر چھ برسوں سے جاری تھا اور یہ پہلے بندروں کے ایمبریوز پر کیا گیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس تکنیک سے تیار کردہ انسانی ایمبریوز کلون بچوں کی شکل اختیار نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ ایسی کسی کوشش میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ ابھی چند مہینے قبل ایک جنوبی کوریائی سائنسدان ہوانگ وو سک نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کلون شدہ انسانی ایمبریوز سے اسٹیم سیلز حاصل کر لیے ہیں مگر بعد میں اُس کا یہ دعویٰ فراڈ ثابت ہوا تھا۔
km/aa (AP)