1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا الظواہری کے بعد القاعدہ کے پاس کوئی رہنما نہیں بچا؟

4 جنوری 2023

بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے امریکی اعلان کو پانچ ماہ گزر گئے۔ اب تک اس گروپ نے نہ تو الظواہری کی ہلاکت کی تصدیق اور نہ ہی ان کے جانشین کے نام کا اعلان کیا ہے۔

Al Kaida Chef Aiman al-Sawahiri (Archivbild)
تصویر: AUSAF Newspaper/EPA/picture alliance/dpa

بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے امریکی اعلان کو پانچ ماہ گزر گئے۔ اب تک اس گروپ نے نہ تو الظواہری کی ہلاکت کی تصدیق اور نہ ہی ان کے جانشین کے نام کا اعلان کیا ہے۔ 

گزشتہ برس اگست کے اوائل میں صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکی مسلح افواج نے افغان دارالحکومت کابل میں ڈرون کے ذریعے الظواہریکے گھر پر دو میزائل داغے، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ اس امریکی اعلان کے باوجود القاعدہ کا 'پروپیگینڈا ونگ‘ الظواہری کے آڈیو ویڈیو پیغامات نشر کرتے رہے۔ واضح رہے کہ مصر سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند نظریے کے حامل ایمن الظواہری نے2011 ء میں امریکی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں پاکستان میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس گروپ کی قیادت سنبھالی تھی۔

انسداد انتہا پسندی سے متعلق ایک تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہنس ژاکوب شنڈلر الظواہری کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی طرف سے اب تک اختیار کی گئی خاموشی کو ''انتہائی عجیب و غریب‘‘ رویہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،'' ایک نیٹ ورک صرف ایک لیڈر کے ساتھ ہی فعال رہتا ہے۔ اسے ایک شخص کی موجودگی چاہیے ہوتی ہے، ایک ایسا شخص جس کے ارد گرد سب کچھ گھومتا ہو۔‘‘

ایمن الظواہری کو کابل میں ان کے گھر پر میزائل حملے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھاتصویر: AFP

'تمام آپشنس کھلے ہیں‘

ایک امریکی بلاگرز ویب سائٹ ''لاء فیئر‘‘ سے منسلک محققین رفائیلو پانٹوچی اور کبیر تنیجا نے گزشتہ سال دسمبر کے اوائل میں اس ویب سائٹ پر تحریر کیا،'' الظواہری کی ہلاکت کی امریکہ کی طرف سے عام کی جانے والی خبر غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن امریکی صدر جوبائیڈن نے عوامی سطح پر جس پُر اعتماد انداز میں الظواہری پر حملے اور اُن کی ہلاکت کا اعلان کیا، اُس سے خبر کے غلط ہونے کا امکان نہیں پایا جاتا۔‘‘

افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف یک طرفہ کارروائی کا متبادل برقرار، امریکہ

ایک اور امکان یہ ہے کہ یہ گروپ اب تک الظواہری کے ممکنہ جانشین، ان کے سابق نائب سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا ہے، جسے سیف العدل یا ''انصاف کی تلوار‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چند مبصرین کے خیال میں 1980ء کی دہائی میں جہاد کی طرف راغب ہونے والے مصری اسپیشل فورسز کے یہ سابق لیفٹیننٹ کرنل اب ایران میں ہیں۔

اس اسلامی جمہوریہ کے شیعہ حکمران سرکاری طور پر سنی القاعدہ کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن تہران کے مخالفین نے بارہا ایران پر اس نیٹ ورک کے ساتھ تعاون کرنے اور اس کے رہنماؤں کو پناہ دینے کا الزام لگایا ہے۔ شنڈلر کے بقول،''سیف العدل ایرانی حکومت کے لیے محض ایک ذمہ داری ہی نہیں بلکہ ایک اثاثہ بھی ہے۔‘‘

ورجینیا کے میوزیم میں امریکہ کی جاسوسی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والے آلات کی نمائش تصویر: Evelyn Hockstein/REUTERS

اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے تہران اسے امریکہ کے حوالے کرنے یا اسے مغرب پر حملہ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ محققین رفائیلو پانٹوچی اور کبیر تنیجا کا ماننا ہے کہ طالبان کے دباؤ میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ بھی الظواہری کی موت کے بارے میں خاموشی اختیار کر رہی ہے۔ اس دہشت گروپ نے اگست میں محتاط الفاظ میں ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں نہ توالظواہریکی افغانستان میں موجودگی کی تصدیق کی گئی اور نہ ہی اس کی موت کو تسلیم کیا گیا۔ محققین نے کہا، ''تبصرہ نہ کرنے کا ان کا فیصلہ القاعدہ کے ساتھ اپنے نازک لیکن گہرے تعلقات کو سنبھالنے کی ان کی کوششوں کا حصہ ہو سکتا ہے۔‘‘

القاعدہ کے بارے میں اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب یہ وہ دہشت گرد گروپ نہیں ہے، جس نے گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو امریکہ میں حملے کیے تھے۔ القاعدہ اب مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں خود مختار لیکن اپنی ہم خیال عسکریت پسند تنظیموں کا ایک بکھرا ہوا مجموعہ ہے، جو ماضی کی نسبت حکمت عملی کے لحاظ سے مرکزی کمانڈ پر بہت کم انحصار کرتا ہے۔

ک م/ ع ا(اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں