ایمیزون کے قلب میں، مقامی خواتین ماں بننے سے خوفزدہ کیوں؟
2 نومبر 2025
سائنسدانوں کی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ علاقے کے بچوں میں پائے جانے والے پراسرار دماغی امراض کا تعلق دریا میں شامل مرکری سے ہو سکتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب کوئی سائنسی مطالعہ ان معذوریوں کی وجہ کو زہریلی آلودگی سے جوڑنے کے قریب پہنچا ہے۔
سائنسدانوں کو جلد ہی جواب ملنے کا امکان
رینی اُن کم از کم 36 افراد میں شامل ہیں جو دماغی بیماریوں میں مبتلا ہیں، اور جن کے عارضے کی وجوہات جینیاتی ٹیسٹ سے واضح نہیں ہو سکیں۔ اس بارے میں ابتدائی معلومات ایک تحقیق سے حاصل ہوئی ہیں جو مرکری کی آلودگی کے اثرات پر کی جا رہی ہے۔
اگرچہ سائنسدانوں نے پہلے بھی خبردار کیا تھا کہ مرکری ایمیزون کے مقامی بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے ، لیکن اب تک کسی نے ان بیماریوں کا براہِ راست مرکری سے تعلق ہونے کا ثبوت پیش نہیں کیا۔ یہ تحقیق ممکنہ طور پر پہلی بار مرکری اور ان مخصوص بیماریوں کے مابین تعلق کو ثابت کر سکتی ہے۔
موندوروکو قبیلے کی رہنما، الیساندرا کوراپ کہتی ہیں، ''ماں کا دودھ اب قابلِ اعتماد نہیں رہا۔‘‘ برازیل کی ایک ریاست سائی سنزا، جو غیر قانونی کانوں سے گھرا ہوا ایک موندوروکو کمیونٹی ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والی تین سالہ رینی کیٹلن کے خاندان کو یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ آخر وہ اپنا سر کیوں نہیں اٹھا سکتی اور مسلسل پٹھوں کی جھٹکوں کا شکار کیوں ہے۔
یہ ثابت کرنا کہ وجہ مرکری ہے، آسان نہیں
پاؤلو باستا، عوامی صحت کے ادارے فیوکروز کے محقق ہیں، جو گزشتہ تین دہائیوں سے مقامی قبائل میں مرکری کی آلودگی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اس جاری تحقیق میں، باستا کی ٹیم اس اہم کڑی کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو اب تک غائب تھی: یہ ثبوت کہ مرکری ہی معذوریوں کا سبب بن رہا ہے۔
اس مقصد کے لیے وہ 176 حاملہ خواتین کا مطالعہ کر رہے ہیں تاکہ بچوں کی ابتدائی زندگی میں ان کے طبی اثرات جانچے جا سکیں۔
سائی سینزا میں، جہاں رینی کیٹلن اور اس کا خاندان رہتا ہے، ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ مطالعے میں شامل ماؤں کے جسم میں مرکری کی مقدار اوسطاً برازیلی وزارتِ صحت کے محفوظ حد سے پانچ گنا زیادہ تھی، جبکہ ان کے بچوں میں یہ سطح تین گنا زیادہ تھی۔
رینی کیٹلن کی ایک سالہ بہن، رائلین، بھی ان بچوں میں شامل ہے، اگرچہ اس میں ابھی تک کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔
نرس کلیدیانے کاروالہو نے کہا، جو کئی سال پہلے سائنسدانوں کے ساتھ ان بیمار مقامی بچوں کا رابطہ کروانے کے لیے نکلی تھیں، کہتی ہیں، ''یہ مرکری کی بیماری ہے، اگر آپ اسے تلاش نہ کریں، تو یہ نظر نہیں آئے گی۔‘‘
اگر یہ تحقیقات نہ ہوتیں، تو انہیں خدشہ تھا کہ یہ بحران ''خاموش کر دیا جائے گا، ہمیشہ کے لیے نظر انداز کر دیا جائے گا۔‘‘ لیکن مرکری آلودگی کو معذوریوں سے جوڑنے کا ثبوت فراہم کرنا ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔
زہر آلود مچھلی کھاؤ یا بھوکے رہو
رینی کے والد، روزیلٹن سا، کئی سالوں سے اپنے گاؤں کے قریب کان کن کے طور پر کام کر رہے ہیں، اپنے والد روزینیلڈو کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے۔
ایک کمرے کے لکڑی کے گھر میں بیٹھے روزینیلڈو نے اعتراف کیا کہ وہ جانتے تھے کہ وہ مرکری جو وہ استعمال کرتے ہیں، خطرناک ہے لیکن، ہفتے میں تقریباً 30 گرام سونا نکالنا صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ ''ہم اپنا گزارا کر سکیں۔‘‘
یہ خاندان باقاعدگی سے سوروبیم نامی گوشت خور مچھلی کھاتا ہے، جو دریا کے ماحول میں مرکری جذب کرتی ہے۔
رینی کیٹلن، جو نگلنے میں شدید مشکلات کا شکار ہے، اسی مچھلی کا شوربہ پیتی ہے۔
حالیہ برسوں میں، سرکاری صحت کے اہلکاروں نے اس وسیع علاقے میں درجنوں ایسے مریضوں کی نشاندہی کی ہے جو اسی نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
لیکن ٹیسٹنگ کی کمی اور طبی سہولیات تک محدود رسائی نے اس مسئلے کی مکمل تصویر مرتب کرنا یا اس کی درست وجوہات معلوم کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
اب محققین ایک طویل المدتی تحقیق میں مرکری زہر کے ساتھ وابستہ دماغی مسائل پر ڈیٹا جمع کر رہے ہیں، جن میں شدید دماغی ساخت کی خرابی سے لے کر یادداشت کی کمزوری تک شامل ہیں۔ یہ تحقیق 2026 ء کے آخر تک مکمل ہو جائے گی۔
ادارت: افسر اعوان