سعودی ولی عہد واشنگٹن میں: ممکنہ نتائج اور خطے پر اثرات
17 نومبر 2025
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان غزہ جنگ بندی کے بعد پہلی بار امریکی صدرٹرمپ سے براہ راست ملاقات کریں گے۔
تجزیہ کار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی وائٹ ہاؤس آمد سے دو اہم نتائج کی توقع کر رہے ہیں: دوستانہ ملاقات اور متعدد معاہدوں پر دستخط۔ ۔
لندن کے تھنک ٹینک چھیتم ہاؤس کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام سے وابستہ نیل کویلیم نے ڈی ڈبلیو کو اس بارے میں بتایا، ''دونوں فریق یہ چاہیں گے کہ ملاقات کے بعد کوئی بڑا معاہدہ یا ایسی پیش رفت سامنے آئے جو اس ملاقات کو شاندار کامیابی ثابت کرے۔‘‘
محمد بن سلمان ، یا ایم بی ایس کے لیے یہ دورہ سیاسی منظرنامے پر ان کی مکمل واپسی کی علامت ہے۔ ان کا آخری دورہ 2018 ء میں ہوا تھا، جو سعودی ناقد جمال خاشقجی کے قتل کے باعث تنازع کا شکار رہا۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات بڑی حد تک بحال ہو چکے ہیں۔ جنوری 2025 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بنے تو ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ریاض کا تھا، جہاں انہوں نے امریکہ میں 600 ارب ڈالر (517 ارب یورو) کی سعودی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔
اس بار واشنگٹن میں دونوں فریقین کے درمیان مصنوعی ذہانت، سرمایہ کاری، دفاع، سلامتی اور جوہری امور پر بات چیت متوقع ہے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں سلامتی کی نازک صورتحال کے پیشِ نظر۔
جون میں اسرائیل اور امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، جس کے نتیجے میں کئی روز تک جھڑپیں جاری رہیں۔ ستمبر میں اسرائیل نے قطر میں حماس کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا اور اکتوبر میں امریکہ کی ثالثی سے ایک نازک جنگ بندی عمل میں آئی، جس نے غزہ میں تقریباً دو سالہ جنگ کو روک دیا۔
سکیورٹی اور اسرائیل
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (ایم بی ایس) واشنگٹن میں ایک ایسے دفاعی معاہدے کے خواہاں ہیں جو کم از کم قطر کو صدر ٹرمپ کی جانب سے دی گئی سکیورٹی ضمانتوں کے برابر ہو۔ قطر کو یہ معاہدہ اسرائیل کے حملے کے بعد ملا تھا، جو انتظامی حکم کے ذریعے نافذ ہوا۔
سعودی عرباور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے امریکہ کی ثالثی میں ایک معاہدہ زیر غور تھا، جس میں سکیورٹی ضمانتیں اور سعودی جوہری پروگرام شامل تھے۔ تاہم غزہ جنگ کے بعد سعودی عرب نے واضح کر دیا کہ اسرائیل سے کسی بھی معاہدے کے لیے دو ریاستی حل ضروری ہے، جسے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مسترد کر دیا ہے۔
ٹرمپ کا ماننا ہے کہ سعودی عرب بالآخر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو گا، لیکن فی الحال ایم بی ایس اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر آمادہ نہیں۔ اس کی بجائے سعودی عرب امریکہ سے فلسطینی ریاست کے لیے مضبوط حمایت اور غزہ میں جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر زور دے گا، جس میں اسرائیل کا انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا، عبوری انتظامیہ اور کثیر القومی سکیورٹی فورس کی تعیناتی شامل ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے قبل، جس نے غزہ میں جنگ کو بھڑکایا، اسرائیل اور سعودی عرب امریکی ثالثی میں تعلقات معمول پر لانے کے ایک معاہدے کے قریب تھے، جو ابراہیمی معاہدوں کا حصہ تھا۔ دیگر عرب ممالک بشمول بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش، پہلے ہی 2020ء اور 2021 ء میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے تھے۔
کون سی مشکلات آڑے آ رہی ہیں؟
سعودی عرب کے لیے یہ معاہدہ ایک سہ فریقی ڈیل ہوتا، جس میں امریکہ سکیورٹی ضمانتیں دیتا يعنی وہ تحفظ اور تعاون جو نیٹو کے رکن ممالک کو ملنے والی حمایت کے برابر ہو اور اس معاہدے میں سعودی عرب کے لیے ایک سول نیوکلیئر پروگرام بھی شامل ہوتا۔
تاہم غزہ میں جنگ کے آغاز کے ساتھ، سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کو اُس وقت تک کے لیے مسترد کر دیا ہے، جب تک کہ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی قابل اعتبار راستہ نہ نکلے۔
اُدھر اس منصوبے کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے عوامی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اس تضاد کے باوجود ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہسعودی عرب بالآخر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔ نومبر کے اوائل میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں ٹرمپ نے پیش گوئی کی تھی کہ سعودی مملکت فلسطینی ریاست کے حوالے سے پیش رفت کے باوجود جلد ہی معاہدے میں شامل ہو جائے گی۔
ریاض کی کوششیں
ریاض حکومت، اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کو ''فیز ٹو‘‘ میں منتقل کرنے کے عزم کے ساتھ، فلسطینی ریاست کے لیے مضبوط امریکی حمایت پر زور دے گی۔ اس مرحلے میں غزہ سے اسرائیل کا انخلاء، حماس کو غیر مسلح کرنا، ایک عبوری اتھارٹی کا قیام اور غزہ میں ملٹی نیشنل سکیورٹی فورس کی تعیناتی شامل ہو گی۔
تنازعات کے باوجود قریبی تعلقات
جاری تنازعات کے باوجود، دونوں فریق تیل کی پیداوار پر اختلاف رکھتے ہیں۔ امریکہ پیداوار میں اضافہ چاہتا ہے، جبکہ ریاض حکوعمت کمی کی خواہاں ہے کیونکہ قیمتیں اس کی توقعات کے مطابق نہیں ہیں۔
لندن میں قائم دفاعی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (RUSI) میں مشرقِ وسطیٰ سکیورٹی کے مشیر مائیکل اسٹیفنز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ایک اور حساس مسئلہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال ہو سکتا ہے۔‘‘ تاہم اسٹیفنز کا ماننا ہے کہ یہ اختلافات ملاقات پر غالب نہیں آئیں گے۔ ان کے مطابق، ''یہ ایک نتیجہ خیز اور دوستانہ ملاقات ہو گی اور دیکھنا ہوگا کہ یہ کس سمت جاتی ہے کیونکہ ان کے سامنے کئی جغرافیائی سیاسی سوالات ہیں، جنہیں حل کرنا ہے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد