ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن میں لفظوں کی جنگ
31 دسمبر 2010ایم کیو ایم اورمسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کے غیر مہذب بیانات پر بعض سینئر سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ ذاتیات پر حملوں کے بعد پارلیمنٹرین کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ مبصرین کے بقول دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن دونوں کے قائدین نے اپنے اپنے ارکان اسمبلی کے ذریعے اپنی اصل سوچ کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ اس بات کا پیمانہ جانچنے کی بھی کوشش کی ہے کہ کونسا رکن اپنے قائد سے ”محبت“ میں کس سطح تک جاسکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی اورایم کیوایم کے ارکان کے ایک دوسرے پر انتہائی پست سطح پر جا کر الزامات لگانے کا افسوس ضرور ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے ارکان اپنے اپنے قائدین کو اس بات کا یقین دلا وا رہے تھے کہ وہ کس حد تک ان کے وفا دار ہیں۔
ماہر نفسیات حیدر رضوی کا کہنا ہے کہ جب سیاست دانوں کے پاس شعور اور دلیل نہ ہو تو پھر ایسا ہی رویہ سامنے آتا ہے۔ سیاستدان حقیقی سیاسی مسائل سے نظریں چرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹرین ایک دوسرے کے لیے نازیبا زبان استعمال کر کے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ مسلم لیگ ن دو مرتبہ ایم کیو ایم کی اتحادی رہی لیکن حکیم سعید کے قتل کے بعد جیسے ہی آپریشن شروع ہوا تو ایم کیو ایم اور مسلم لیگ کے راستے جدا ہوگئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں ہمیشہ ایک دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے۔ الطاف حسین، نواز شریف اور ان کے خاندانوں اور ذاتی زندگی کے حوالے سے الزامات لگانے سے پہلے ارکان اسمبلی کو اس بات کو ضرورت مد نظر رکھنا چاہیے تھا کہ جب اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کوئی نیا اتحاد وجود میں آئے گا تو پھر یہ تمام سیاست دان ایک دوسرے سے نظریں کیسے ملائیں گے۔؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم اورمسلم لیگ ن کے ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف جو نازیبا زبان استعمال کی ہے اسے کہیں نہ کہیں اپنی اپنی جماعتوں کے مرکزی قائدین کی حمایت اور تائید ضرور حاصل ہوگی۔ کیونکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے بیانات کے بعد دونوں جماعتوں کے قائدین اب ”خاموش“ ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاست دان، جھوٹ، فریب اور ناشائستہ رویے اور اختلاف کو جمہوریت کی خوبصورتی قرار دیتے ہیں، لیکن عوام کا رد عمل یہ ہے کہ اگر یہی ناشائستگی جمہوریت ہے تو پھر آمریت کہیں بہتر ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: امتیاز احمد