ایم کیو ایم: پاکستان برطانیہ سے تعاون کی درخواست کرے گا
25 جون 2015
ایم کیو ایم کے خلاف یہ الزامات برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک ٹی وی رپورٹ میں لگائے گئے تھے، جو کل بدھ کے روز نشر کی گئی تھی۔ پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے آج جمعرات پچیس جون کی شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر کے مشورے سے کل (جمعہ چھبیس جون کو) پاکستانی حکومت کی طرف سے برطانوی حکومت کو ایک خط لکھیں گے جس میں بی بی سی کی اس رپورٹ میں شامل کردہ حقائق تک رسائی کی درخواست کی جائے گی۔
اس پریس کانفرنس سے قبل آج جمعرات ہی کے روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پہلے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور پھر پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
چوہدری نثار نے صحافیوں کو بتایا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے برطانوی ہائی کمشنر کو باور کرایا کہ بی بی سی کی رپورٹ میں جو حقائق سامنے آئے ہیں، وہ انتہائی اہم اور بہت حساس ہیں۔ یہ پاکستان کی حکومت اور پاکستانی عوام کے لیے تشویش کا باعث ہیں، جو اس امر کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کی شفاف تحقیقات کی جائے اور ان تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچا کر پاکستان کو باخبر بھی رکھا جائے۔‘‘
چوہدری نثار نے کہا کہ برطانوی ہائی کمشنر کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ پاکستان نے جس طرح ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں گزشتہ کئی ماہ کے دوران حکومت برطانیہ اور سکاٹ لینڈ یارڈ کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا ہے، اس سے اس جرم کا کھوج لگانے میں مدد ملی ہے۔ اسی طرح اب اس معاملے میں بھی تعاون کیا جانا چاہیے۔
پاکستانی وزیر داخلہ نے کہا کہ بی بی سی کی رپورٹ نے ’ہماری ان معلومات اور اندیشوں کو تقویت دی ہے، جو ہماری اپنی ایجنسیاں وقتاﹰ فوقتاﹰ ملکی حکومت کو اور بین الاقوامی سطح پر بتاتی رہی ہیں‘۔
چوہدری نثار کے مطابق، ’’ہمارے ہمسایہ ملک کی اعلٰی قیادت نے ازخود ان غیر قانونی اور غیر انسانی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اقرار کیا ہے۔ اس صورتحال میں بی بی سی کی یہ ڈاکومنٹری انتہائی اہم ہے۔ حکومت اور عوام حقائق جاننا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام آباد حکومت آخری حد تک جائے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں اسی ہفتے کے آخر میں یا آئندہ ہفتے پاکستان آئے گی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ بھارتی حکومت سے فنڈز حاصل کرتی رہی ہے جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ ایم کیو ایم کے متعدد کارکنوں کو دہشت گردی کی تربیت بھی دیتی رہی ہے۔ بھارتی حکومت اور متحدہ قومی موومنٹ بی بی سی کی اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے ہمسایہ ملک بھارت سے کسی قسم کی کوئی مالی مراعات حاصل نہیں کیں اور نہ ہی اس پارٹی کا کوئی کارکن کسی بھی طرح کی تربیت کے لیے کبھی بھارت گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین شیخ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے خلاف اس سازش کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہے۔
جمعرات کے روز اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکات سے باز آ جائے۔ ایسے الزامات ایم کیو ایم پر 1992ء میں بھی لگائے گئے تھے۔ تب بھی یہ الزامات انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے ہی لگوائے گئے تھے لیکن سب کے سب جھوٹ ثابت ہوئے تھے۔ اب بھی یہ دعوے جھوٹ کے پلندے کے سوا کچہ نہیں ہیں۔‘‘
ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما سید رضا عابدی کا کہنا تھا، ’’دیکھا جائے تو اس رپورٹ میں ہمارے خفیہ اداروں کی اہلیت پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر ایم کیو ایم کے کارکن بھارت سے امداد یا ’را‘ سے تربیت لیتے رہے ہیں تو ہمارے خفیہ ادارے کیا کرتے رہے ہیں؟ اس سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اس معاملے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کے لیے صلاح مشورے کر رہی ہے۔
ادھر لندن میں بھارتی ہائی کمیشن نے بھی بی بی سی کی ٹی وی رپورٹ میں کیے گئے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے، ’’طرز حکمرانی کی خامیاں ہمسایہ ممالک پر الزامات عائد کرنے سے دور نہیں ہو سکتیں۔‘‘