اینجلینا جولی روہنگیا خواتین سے ملنے بنگلہ دیش جائیں گی
صائمہ حیدر
16 نومبر 2017
فلم اسٹار اینجلینا جولی نے میانمار کی راکھین ریاست میں روہنگیا خواتین پر کیے جانے والے مبینہ جنسی تشدد کی مذمت کی ہے۔ میانمار میں فوجی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔
اشتہار
میانمار کی ریاست راکھین میں اگست کے اواخر میں مسلح حملوں اور کریک ڈاؤن کے بعد اب تک چھ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچا کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے راکھین میں اس خونریزی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے روہنگیا برادری کی ’نسلی تطہیر‘ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔
ہالی ووڈ سٹار اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی خیرسگالی کی سفیر اینجلینا جولی نے کینیڈین شہر ونکوور میں بنگلہ دیش کی وزارت دفاع کے ایک وفد کو بتایا کہ وہ جنسی تشدد کی شکار روہنگیا خواتین سے ملاقات کا ارادہ رکھتی ہیں۔
بنگلہ دیشی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے،’’ اینجلینا جولی نے اپنی تقریر میں میانمار سے بنگلہ دیش ہجرت کر کے آنے والی روہنگیا خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے بات کی۔‘‘ وزارت دفاع کے اس بیان میں تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ جولی کے روہنگیا خواتین سے ملنے کے لیے بنگلہ دیش آنے کی مجوزہ تاریخیں کیا ہیں۔
روہنگیا تنازعے پر جنسی تشدد کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی نمائندہ خاص پرمیلا پاٹن نے کہا ہے کہ وہ میانمار کی فوج کے خلاف ہیگ کی انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں مقدمہ دائر کریں گی۔
خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز بھی ظلم و تشدد میں شامل رہیں جبکہ ملکی فوجیوں نے ان کے گھروں کو آگ لگائی، مردوں کو ہلاک کیا، عورتوں کو ریپ کیا اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘