1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اینیمیٹڈ کارٹونز کے بچوں پر تباہ کن اثرات

17 اگست 2024

کچھ غیر مستند یو ٹیوبرز اور کمپنیاں مشہور کارٹونز کی اپنے طور سے تجدید کررہے ہیں۔ ان اقساط میں بالغان اور بچوں کے لیے کوئی تخصیص نہیں۔ جنسی بےراہ روی پر مبنی سیریز دیکھ کر بچے قبل از وقت ہی سن بلوغت کو پہنچ رہے ہیں۔

تصویر: Privat

دور حاضر کے بچے گھر کے بزرگوں سے کوہ قاف کی کہانیاں، علی بابا چالیس چور، ٹوٹ بٹوٹ کے قصے سننے، تتلیوں کا تعاقب کرنے، بارش کے پانیوں میں کاغذی کشتی کے رحجان کے علاوہ بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا، جگنو، ساتھی جیسے پرکشش اور سبق آموز رسالے پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ بچوں کو انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے سیانا و سنجیدہ کر دیا ہے۔ ماضی میں جائیں تو 80 کی دہائی میں بچے سکول، ٹیوشن سے فراغت کے بعد خوب جم کر کھیل کود اور شوروغوغا میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کے بعد شام کے سرمئی آنچل میں گھر کے بڑوں سے حکایات سنتے تھے۔

پھر 90 کا دور آیا، جس میں قومی چینل بڑی کانٹ چھانٹ سے بچوں کی ذہنی استطاعت کے مطابق 6 بجے والے کارٹون نشر کیا کرتا تھا۔ گویا کہانیوں کی جگہ کارٹونز نے لے لی۔ عینک والا جن سمیت دیگر ایسے معیاری پروگرام پیش کیے جاتے تھے، جو بچوں کی ذہن سازی میں مثبت اور کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔اس تفریحی مواد میں اخلاقیات کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ جھوٹ، چوری، فریب کی قباحتوں سے بھی بچوں کو روشناس کروایا جاتا تھا۔

 2000 میں گھر گھر کیبل عام ہونے سے کارٹون نیٹ ورک نے بچوں کے وقت کے ضیاع میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بچے 24 گھنٹے ٹی وی کے آگے ٹکٹکی باندھے کھڑے رہتے لیکن اکثر گھرانوں میں ٹی۔وی پر ہر قسم کے کارٹون دیکھنے پر قدغن تھی یعنی بچوں کی مانیٹرنگ گھر کا ہر فرد کر رہا ہوتا تھا۔

لیکن دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آنے والی نسل کی آبیاری ایسے ڈیجیٹل زہر سے ہو رہی ہے کہ شاید جس کا تریاق نہ مل سکے۔ اس چھوٹی سی ڈیوائس کو لے کر بچہ کسی بھی کونے میں کچھ بھی دیکھ سکتا ہے ایسی نشریات جو کہ اس کی عمر میں دیکھنے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ کارٹون اینیمیٹڈ سیریز کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کچھ غیر مستند یو ٹیوبرز اور کمپنیاں مشہور کارٹونز کی اپنے طور سے تجدید کر رہے ہیں  ان مفاد پرستوں کا کارٹون انڈسٹری سے کوئی تعلق نہیں۔

چند اینیمیٹڈ کارٹون سیریز میں اخلاق باختہ الفاظ کا پرچار کیا جاتا ہے۔ نیز فیمل کرداروں کے جسمانی خدوخال کو خوب نمایاں کیا جاتا ہے۔ حتی کہ جنسی بےراہ روی پر مبنی اقساط بغیر کسی خطرے کے اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں۔ ایسا سب کچھ دیکھ کر بچوں میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں پھر ہارمونل تبدیلیاں بنتی ہیں، جس کے باعث بچوں کی کثیر تعداد قبل از وقت سن بلوغت کو پہنچ رہی ہے جو کہ والدین اور معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

ستم ظریفی تو دیکھیے کہ بچوں کو غیر صحت مند اور غیر متوازن غذا کی طرف راغب کرنے میں بھی کارٹونز کا بڑا عمل دخل ہے۔جو کہ بچوں کو جنک فوڈ کی طرف مقناطیس کی مانند کھینچتے ہیں۔ بچوں کے فیورٹ کردار زیادہ تر کینڈی، چپس اور اسنیکس کھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک اور کارٹون موٹو پتلو جس کے دو کرداروں کو جب بھی بھوک لگتی ہے یہ سموسے، نوڈلز وغیرہ جیسی چیزیں کھا کر فوراً چاق و چوبند ہو جاتے ہیں۔ حقیقتاً جب بچے بازار کے گندے آئل سے تلے سموسے اور چپس کھاتے ہیں تو فوراً  پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اکثروبیشتر غیر حفظانِ صحت کے اصولوں پر مبنی مصنوعات کے پیکٹس کے باہر بچوں کے مشہور کارٹون کردار پرنٹ شدہ ہوتے ہیں۔فوڈ کمپنیز بخوبی ادراک رکھتی ہیں کہ کارٹون کردار کس طرح غذائی مصنوعات کو بیچتے ہیں جو ان کی کمائی کا ذریعہ ہیں۔

زیادہ تر کارٹونز میں حیرت انگیز حد تک تشدد دکھایا جاتا ہے۔ ہر کردار ایک دوسرے کو مار پیٹ اور دھمکاتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ان کارٹونز کی وجہ سے نہ صرف بچوں کی طبیعت میں شدت و شقاوت پیدا ہوتی جا رہی ہے بلکہ بڑوں کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ بھی بالائے طاق رکھنا عام سی بات ہو گئی ہے۔ 

مجبوری میں مائیں بچوں کے ہاتھوں میں موبائل تھما کر خود کاموں میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ بقول ان کے کہ اس طرح بچے کا دھیان اینیمیٹڈ کارٹونز کی طرف رہنے سے اس کا دل بہلا رہتا ہے اور وہ شور نہیں کرتا۔

افسوسناک پہلو تو یہ ہے بچوں کے حقیقی دنیا سے فرار اور فینٹسی ورلڈ میں کھوئے رہنے کے رحجان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے فینٹسیز میں مبتلا بچے تعلیم اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اعصابی تناؤ کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ کمزور دل ہو جاتے ہیں۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ اکثر بچے منفی سرگرمیوں کا اثر جلد قبول کرتے ہیں مثال کے طور پر ''ٹین ٹائٹنز‘‘ ، ''بلی اینڈ میڈی‘‘ میں کالے جادو کی ترویج کی گئی ہے۔ ''ڈورے مون‘‘ دیکھنے کے بعد بچے شدید خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمارا ہوم ورک کوئی گیجٹ ہی کر دے۔

بچوں کو جس چیز میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے وہ کرکے ہی رہتے ہیں اس لیے بچے اگر بہت زیادہ انہماک سے یوٹیوب دیکھ رہے ہیں تو آپ کچھ بھی کرلیں بچے کارٹون دیکھنے سے باز نہیں آئیں گے۔

بہترین حل یہ ہو سکتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تفریحی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ ڈیجیٹل آلات کے پاسورڈ معلوم ہونے چاہیں۔ بچوں کا اسکرین ٹائم والدین کی موجودگی میں مختصر ہو۔مستقبل میں الارمنگ صورتحال سے بچنے کے لیے پہلے سے مناسب منصوبہ بندی کر لی جائے کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کہیں ایسا نہ ہو آپ ''اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کی عملی مثال بن جائیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں