این آر او کیس کی سماعت مقررہ وقت پر، سپریم کورٹ
11 اکتوبر 2010پیرکو پاکستانی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر صدارت تین رکنی بینچ نے قومی مصالحتی آرڈیننس این آر او کے نظر ثانی کیس کی سماعت شروع کی تو وفاق کے وکیل نے عدالت سے مزید مہلت مانگی، تاہم چیف جسٹس نے اسے وفاق کی طرف سے ’تاخیری حربہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ وفاق کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں اپنا وکیل تبدیل کرنے کے لئے مہلت طلب کی گئی تھی۔
گزشتہ ماہ ہی سپریم کورٹ نے صدر آصف علی زرداری کی انتظامیہ کو دو ہفتے کی مہلت دی تھی، جو 13اکتوبر بروز بدھ ختم ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے باہرحکومتی وکیل راجہ عبدالغفور نے خبر رساں ادارے AFP کو بتایا کہ عدالت نے مزید مہلت کی درخواست مسترد کر دی ہے اور اب اس کیس کی سماعت بدھ کو ہی ہو گی۔
این آر او کے تحت جن شخصیات کے خلاف مقدمات ختم گئے، ان میں وزیر داخلہ رحمان ملک اور وزیر دفاع احمد مختار کے علاوہ تیس دیگر سیاستدانوں کے نام بھی بتائے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں اعلٰی حکومتی اہلکاروں کےعلاوہ غیرممالک میں تعینات تین سفیر بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قریب آٹھ ہزار افراد نے این آر او کے تحت اپنے خلاف مقدمات ختم کروائے۔ ان مقدمات کی کُل تعداد تین ہزار چار سو 78 ہے اور ان میں بدعنوانی سے لے کر قتل تک جیسے مقدمات شامل ہیں۔
صدر پاکستان کے خلاف بدعنوانی کا کیس بھی اسی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ختم ہوا تاہم جب تک وہ صدرکےعہدے پر فائز ہیں، پاکستانی آئین کے مطابق ان کے خلاف کوئی بھی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
اس کیس کی وجہ سے آصف علی زرداری پر شدید دباؤ پایا جاتا ہے۔ سن 2007ء میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے عالمی دباؤ کے تحت یہ آرڈیننس جاری کیا تھا تاکہ ملک میں فوجی راج کا خاتمہ کرتے ہوئے باقاعدہ جمہوریت قائم کی جائے۔ اس مصالحتی آرڈیننس کے تحت انتہائی با اثر سیاستدانوں اور دیگر شخصیات پر قائم کئے گئے مقدمات واپس لے لئے گئے تھے تاکہ وہ ملک واپس آ کر جمہوری عمل میں حصہ لے سکیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی