’این ایس اے پر جرمن تحقیقی پینل کی جاسوسی نہیں ہوئی‘
6 جولائی 2014جرمنی میں ایک خفیہ ایجنسی کے ایک اہلکار کو امریکا کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے بارے میں تفتیش کرنے والے پینل کے چیئرمین پیٹرک زینزبرگ کا کہنا ہے کہ مشتبہ جاسوس نے اس تحقیق سے متعلق خفیہ معلومات فروخت نہیں کیں۔ زینزبرگ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے رکن ہیں۔
انہوں نے ہفتے کو ایک انٹرویو میں کہا: ’’فی الحال، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں جن سے این ایس اے کمیٹی کے دستاویزات کی جاسوسی کے بارے میں پتہ چلے۔‘‘
رواں ہفتے جرمنی کی انٹیلیجنس ایجنسی بی این ڈی کے ایک ملازم کو جاسوسی کے الزام پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بی این ڈی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ مشتبہ جاسوس ایجنسی کے ’فارن ڈویلپمنٹ ایریاز‘ ڈویژن سے منسلک تھا اور وہ درحقیقت ایک ایجنٹ نہیں تھا۔
ڈی پی اے نے بی این ڈی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس مشتبہ جاسوس نے 25 ہزار یورو کے عوض ایک نامعلوم امریکی خفیہ ایجنسی کو 218 خفیہ دستاویزات فروخت کیں۔ تاہم بی این ڈی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دستاویزات میں کسی طرح کی حسّاس معلومات شامل نہیں تھیں۔
جرمن اخبار بِلڈ نے اپنی جمعہ چار جولائی کی اشاعت میں بتایا تھا کہ فروخت کی گئی دستاویزات میں سے تین این ایس اے کے بارے میں جاری پارلیمانی تحقیق سے متعلق تھیں۔ بِلڈ کا کہنا تھا کہ مشتبہ جاسوس کو برلن میں امریکی سفارت خانے سے براہ راست احکامات جاری کیے گئے۔
خیال رہے کہ جرمن وزارتِ خارجہ نے جمعے کو وضاحت کے لیے برلن میں تعینات امریکی سفیر جان ایمرسن کو بھی طلب کیا تھا۔ وزارتِ خارجہ کے اسٹیٹ سیکرٹری اشٹیفان اشٹائن لائن نے ایمرسن سے معاملے کی ’فوری وضاحت‘ کی درخواست کی تھی۔
میرکل کے پارلیمانی گروپ کے لیے داخلی امور کے ترجمان اشٹیفان مائیر نے روزنامہ بِلڈ سے بات چیت میں کہا: ’’اگر یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ بی این ڈی کا ایک ملازم برسوں امریکی سفارت خانے کے لیے کام کرتا رہا ہے تو یہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔‘‘
دوسری جانب گرین پارٹی کے ارکان نے اس صورتِ حال کے لیے چانسلر انگیلا میرکل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس جماعت کے داخلہ امور کے ایک پالیسی ماہر فولکربیک کا کہنا ہے: ’’بی این ڈی کی سرگرمیوں کے لیے چانسلر کا دفتر ذمہ دار ہے۔‘‘