1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

این ایف سی پر احسن اقبال کی تجویز، قوم پرستوں کی مخالفت

عبدالستار، اسلام آباد
18 مئی 2023

پاکستان میں قوم پرستوں نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کی اس تجویز کی شدید مخالفت کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

پاکستان کے نیشنل فنانس کمیشن  میں صوبوں کو وسائل کی تقسیم ان کی آبادی اور دوسرے عوامل کی بنیاد پر ہوتی ہے، جس میں آبادی کی شرح سب سے زیادہ ہے لیکن اب احسن اقبال نے آبادی کی بنیاد کو چیلنج کیا ہے، جس پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان پہلے ہی ایک بحرانی صورتحال  سے گزر رہا ہے ایسے وقت میں اٹھارویں ترمیم   کے ایک اہم نقطہ پر بحث چھیڑ کر ملک کے مسائل میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔

احسن اقبال نے کیا کہا؟

واضح رہے کہ کل اسلام آباد میں ایک نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے  احسن اقبال  نے کہا تھا کہ موجودہ نیشنل فنانس کمیشن کا فارمولا رجعت پسند ہے کیونکہ اس میں آبادی کو ترجیح دی جاتی ہے، جس سے آبادی میں اضافہ کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے ایک مستند مردم شماری کرانا بھی تقریباﹰ ناممکن ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان میں اس حوالے سے فالٹ لائنز موجود ہیں۔ سندھ میں شہری دیہی کی تقسیم ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں پختون اور بلوچ کی تقسیم ہیں۔

احسن اقبال کے بیان نے ’چائے کی پیالی میں طوفان‘ برپا کر دیا

01:59

This browser does not support the video element.

ان کا دعویٰ تھا کہ اس وجہ سے معاشرے کی ہر اکائی اپنی آبادی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کو روزگار، سیاسی نمائندگی، مالی وسائل اور دوسری چیزوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ مل سکے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے معروضی حالات میں اٹھارویں ترمیم بہترین تھی، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے پیدا کیا۔ اسی تناظر میں وہ احسن اقبال کے اس بیان کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور وفاقی حکومت کے ارادوں پر بھی شک کر رہے ہیں۔

’اٹھارویں ترمیم کو چھیٹرنا نقصان دہ ہے‘

بلوچستان  سے تعلق رکھنے والے سیاستدان سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم پر اتفاق رائے بڑی مشکل سے ہوا اور اس کے کسی بھی پہلو کو دوبارہ سے چھیڑنا اس ترمیم کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک میں قومیتوں کے بہت سارے مسائل تھے اور اٹھارویں ترمیم ایک بہترین ممکنہ حل تھا، جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا اب اگر اس پر بحث چھیڑی جائے گی تو چھوٹے صوبوں میں یہ سمجھا جائے گا کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔‘‘

 

اکرم بلوچ کے مطابق اس وقت سیاسی طور پر سیاسی جماعتوں میں بہت تقسیم ہے۔ ''ایسے موقع پر اس ترمیم کے ایک اہم نکتہ کو زیر بحث لانا کسی طور پر بھی مثبت نہیں ہے۔‘‘

’وفاق کے ارادے اچھے نہیں لگ رہے‘

پاکستان میں وقتاﹰ فوقتاﹰ مختلف نظاموں کے حوالے سے تجاویز آتی رہی ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں کچھ حلقوں کی طرف سے صدارتی نظام کی بھی تجویز دی گئی۔ چھوٹے صوبوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ ملک کے طاقتور ادارے اٹھارویں ترمیم کے حق میں نہیں ہیں۔ اسی لیے بار بار اٹھارویں ترمیم کے مختلف پہلوؤں کو زیر بحث لایا جاتا ہے تاکہ اس کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے دانشور عبدالخالق جونیجو کا کہنا ہے کہ انہیں وفاقی حکومت کے ارادے  اچھے نہیں لگتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کچھ لوگ اٹھارویں ترمیم کو پسند نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اٹھارویں ترمیم کوئی آئیڈیل نہیں ہے لیکن یہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر کی مصداق ہے۔‘‘

پاکستان میں مردم شماری کے لیے اونٹ کی سواری زير استعمال

02:16

This browser does not support the video element.

عبدالخالق جونیجو کا دعویٰ تھا کہ اگر مرکز کو مالی مسائل ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ وزارتیں جو صوبوں کو واپس کر دی گئی ہیں مرکز اب بھی اس پر پیسہ خرچ کر رہا ہے۔ ''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے پاس ہونے کے بعد مرکز نے کیوں اسی سے زیادہ وزارتیں بنائی ہوئی ہیں؟ وہ کیوں صوبوں کے اندر مختلف پروجیکٹس لگا رہا ہے۔‘‘

عبدالخالق جونیجو کا دعویٰ تھا کہ اگر اٹھارویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو اس کا چھوٹے صوبوں میں شدید ردعمل ہو سکتا ہے۔ ''اگر انہوں نے اٹھارویں ترمیم میں آبادی کی بنیاد کو یا اٹھارویں ترمیم کے کسی اور نکتے کو چھیڑنے کی کوشش کی تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان اس کی مزاحمت کریں گے تاہم پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام لالچ کے خوف سے اس کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔‘‘

پنجابی قوم پرست بھی مخالف

پنجابی قوم پرست بھی اس تجویز کو نامناسب سمجھتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان کے رہنما احمد رضا کا کہنا ہے کہ پنجاب کے ساتھ پہلے ہی کئی معاملات میں زیادتی ہو رہی ہے اور اگر آبادی کی بنیاد پر قومی وسائل کی تقسیم نہیں ہوئی تو پنجاب کو مالی نقصان بھی ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' گزشتہ تین  مردم شماری  کے بعد پنجاب کی سیاسی نمائندگی کو پہلے ہی کم کر دیا گیا ہے اور اگر آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کی مخالفت کی جائے گی تو اس سے پنجاب کو بہت مالی نقصان بھی ہوگا۔‘‘

انہوں نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر پنجاب کی 12 کروڑ آبادی ہو تو اس کو آپ وسائل سندھ کی پانچ کروڑ کی آبادی کے مطابق دیں۔

مثبت تجویز

تاہم معروف پختون دانشور افراسیاب خٹک اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے خیال میں اس حوالے سے اتفاق رائے قائم کیا جا سکتا ہے۔ ''اگر نیشنل فنانس کمیشن سے آبادی کی شرط کو ختم کر دیا جائے تو اس سے وفاقیت مضبوط ہوگئی اور میرے خیال سے مسلم لیگ نون نے مردم شماری کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ پرانے این ایف سی کے فارمولے کی وجہ سے مسائل بڑھے ہیں۔‘‘

افراسیاب خٹک کے مطابق سیاسی اور مالی معاملات میں آبادی کے عنصر نے ایک صوبے کے تسلط کو قائم کیا ہے۔ ''چھوٹے صوبوں نے صرف آبادی کی بنیاد پر این ایف سی کی تقسیم کی مخالفت کی۔ اسی لیے سن 2009 میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وسائل کی تقسیم کے لیے دوسرے عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جائے، بیاسی فیصد آبادی اور اٹھارہ فیصد دوسرے عوامل۔ تو میرے خیال میں اگر آبادی کی بنیاد کو ختم کیا جائے، تو یہ چھوٹے صوبوں کے لیے مثبت ہوگا۔‘‘

پاکستان کی معاشی صورتحال ’برین ڈرین‘ میں اضافے کا سبب

01:56

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں