ایودھیا فیصلے سے پہلے، بالی وُڈ سٹارز کی امن اپیل
30 ستمبر 2010ان شخصیات کا کہنا ہے کہ بھارت کا مذہبی تنوع ہی اُس کی طاقت ہے۔ شمالی بھارتی ریاست اُتر پردیش کی ہائیکورٹ اُس شدید ہندو مسلم تنازعے کے حوالے سے اپنا فیصلہ دینے والی ہے، جس کا تعلق ایودھیا کے اُس مقدس مقام سے ہے، جس پر ہندو اور مسلمان دونوں ہی اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ہندوؤں کا دعویٰ یہ ہے کہ جس جگہ پر بابری مسجد تھی، پہلے اِس جگہ پر اُن کے دیوتا رام کا مندر ہوا کرتا تھا۔ 1992ء میں مشتعل ہندوؤں کے ایک ہجوم نے حملہ کر کے بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ اِس واقعے کے بعد بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات دیکھنے میں آئے تھے، جن میں دو ہزار افراد مارے گئے تھے۔ مرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
نامور فلم سٹار امیتابھ بچن نے ’دی ٹائمز ناؤ‘ نیوز نیٹ ورک سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اپنے ملک میں شاندار ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں پھر سے ماضی کی طرف پلٹ جانےسے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہئے۔ کوئی بھی مذہب ایک دوسرے کے ساتھ نزاع یا کسی بھی قسم کے تشدد کا سبق نہیں دیتا۔‘‘ امتیابھ بچن نے اِس بات پر زور دیا کہ وہ تمام مذاہب کے تہواروں اور تقاریب میں شرکت کرتے رہے ہیں۔
شاہ رُخ خان نے کہا کہ بھارت کا ردعمل ’اِس فیصلے پر ایسا ہونا چاہئے، جو اُس امن اور محبت کی عکاسی کرتا ہو، جو ہم سب ایک دوسرے کے لئے محسوس کرتے ہیں۔‘ ایک اور مشہور اداکار جون ابراہام نے عوام سے پُر سکون رہنے کی اپیل کی اور کہا کہ ’ہمیں دُنیا کو یہ دکھانا چاہئے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔‘
بدھ کو وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایودھیا کے موضوع پر حالیہ ہفتوں کے دوران تیسری پریس کانفرنس میں ایک بار پھر لوگوں پر پُرامن رہنے کے لئے زور دیا اور کہا کہ 1992ء کے بعد بھارت کہیں آگے نکل آیا ہے۔ حکمران کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے کہا کہ ’تقریباً پورے ملک نے اِس بات پر اپنی آمادگی ظاہر کی ہے کہ عدالت کی غیر جانبداری پر ا عتماد کرتے ہوئے جو بھی فیصلہ آیا، اُسے قبول کیا جائے گا۔‘‘
حکومت نے ذرائع ابلاغ پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ایودھیا فیصلے کے بارے میں رپورٹنگ میں احتیاط سے کام لیں۔ ’دی ٹائمز ناؤ‘ نیوز نیٹ ورک میں ’پہلے بھارت‘ کی تحریک پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے اور مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر تمام بھارتی شہریوں کے درمیان اتحاد کی باتیں زور شور کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ اِسی جذبے کو اُجاگر کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندوں اور سیاسی و سماجی شخصیات کے انٹرویوز بھی نشر کئے جا رہے ہیں۔
بھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رُشدی نے اِس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ماضی ماضی ہی ہے۔ اُسے یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ حال پر منفی اثر ڈالے اور اُسے مفلوج کرے۔‘‘ بدھ کو ہندوستان ٹائمز سے باتیں کرتے ہوئے رُشدی نے کہا: ’’یہ قدیم اور جدید کی کشمکش ہے، جس کا تعلق اِس بات سے ہے کہ انسان کو ایک جدید دُنیا میں زندگی کیسے گزارنی ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ عدالت کسی مبہم یا غیر منطقی فیصلے کی بجائے کوئی معقول فیصلہ دے گی۔‘‘
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک