ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ نئی مسجد کی تعمیر ایک اور تنازعے کا شکار ہو گئی ہے۔ تقسیم کے وقت پاکستان سے آنے والے ایک ہندو خاندان کا دعوی ہے کہ یہ زمین اس کی ملکیت ہے لہذا حکومت کو اسے کسی کو الاٹ کرنے اختیار ہی نہیں ہے
اشتہار
ایودھیا میں منہدم تاریخی بابری مسجد کے متبادل کے طور پر بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت نے دھنی پور گاؤں میں ایک مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ اراضی الاٹ کی تھی۔لیکن دہلی میں رہنے والی دو بہنوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ یہ زمین ان کی ملکیت ہے۔
یہ نیا تنازعہ ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب صرف دس دن قبل ہی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اور بیشتر مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے اس سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومتی فیصلہ قرار دیا تھا۔
رانی کپور عرف رانی بلوجہ اور رما رانی پنجابی نامی دو بہنوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے ایودھیا کے دھنی پور گاؤں میں مسجد کی تعمیر لیے انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کو پانچ ایکڑ زمین دینے کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔
ان بہنوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد گیان چند رپنجابی 1947ء میں تقسیم وطن کے بعد پاکستان کے پنجاب سے بھارت آئے تھے اور فیض آباد(اب ایودھیا) ضلع میں محکمہ اراضی میں ملازمت اور وہیں سکونت اختیار کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ محکمہ اراضی نے ان کے والد کو دھنی پور گاؤں میں 28 ایکٹر زمین پانچ برس کے پٹے پر دی، جس میں بعد میں توسیع ہوتی رہی۔اس کی رسید اور دیگر سرکاری دستاویزات بھی ان کے پاس موجود ہیں۔
ان بہنو ں کا کہنا ہے کہ بعد میں سرکاری ریکارڈ سے ان کے والدکا نام حذف کر دیا گیا۔انہوں نے اس کے خلاف ایودھیا کے ایڈیشنل کمشنر سے بھی رابطہ کیا تھا، جنہوں نے ان کا نام بحال کر دیا۔ تاہم ایک دیگر افسرنے ان کے والد کا نام ایک بار پھر حذف کر دیا جس کے خلاف فی الحال ایک مقدمہ زیر التوا ہے۔
دونوں بہنوں کا دعوی ہے کہ حکومت نے اس مقدمے کا فیصلہ کیے بغیر ہی ان کی 28 ایکٹر زمین میں سے پانچ ایکڑ مسجد کی تعمیر کے لیے سنی وقف بورڈ کو دے دی۔ ان کے وکیل کے مطابق اس معاملے پر آٹھ فروری کو سماعت متوقع ہے۔
بابری مسجد انہدام کیس: مجرم کون؟
بھارت کے اجودھیا میں 6 دسمبر1992 کوتقریباً 400 سالہ قدیم تاریخی بابری مسجد کو منہدم کردینے کے کیس میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت 30 ستمبر کو فیصلہ سنانے والی ہے۔
تصویر: AP
انتظار کی گھڑی ختم
بابری مسجد کے انہدام کے تقریباً 28 برس بعد عدالت یہ فیصلہ سنانے جارہی ہے کہ اس مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کرنے والوں میں کون کون لوگ شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D .E. Curran
کون مجرم ہے؟
سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، بی جے پی کے رہنما مرلی منوہر جوشی، اومابھارتی، ونئے کٹیار،کلیان سنگھ، سادھوی رتھمبرا 32 ملزمین میں شامل ہیں۔ دیگر ملزمین میں اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا وفات پاچکے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
کیا ہوگا انجام
بابری مسجد انہدام میں دو کیس دائر کیے گئے۔ ایک لاکھوں نامعلوم ’کارسیوکوں‘ کے خلاف اور دوسرا انہدام کی سازش تیار کرنے والے آٹھ افراد کے خلاف۔ شدت پسند ہندووں کی طر ف سے صحافیوں پر حملوں کے 47 مزید کیس بھی دائر کیے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. E. Curran
سینکڑوں ہلاکتیں
بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں فسادت پھوٹ پڑے تھے۔جن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 1800افراد مارے گئے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
دیرینہ مطالبہ
مسلمان بابری مسجد کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ ہر برس چھ دسمبر کو ’یوم سیاہ‘ مناتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Ghosh
نئی شناخت
قوم پرست ہندو تنظیمیں 6 دسمبر کو ’یوم شجاعت‘ کے طور پر مناتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دن بھارت میں ہندووں کو ایک نئی شناخت ملی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
رام مندر
منہدم بابری مسجد کی جگہ اب ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ایک برس قبل اسی دن جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔
تصویر: AFP/P. Singh
کچھ بچا تو نہیں نا؟
لال کرشن اڈوانی نے اپنی خودنوشت ’میراوطن میری زندگی‘ میں لکھا ہے کہ جب بابری مسجد منہدم ہوجانے کے بعد وہ اجودھیا سے لکھنؤ جارہے تھے تو ایک اعلی سرکاری افسر نے ا ن سے پوچھا ”اڈوانی جی، کچھ بچا تو نہیں نا؟ بالکل صاف کردیا نا؟“
تصویر: AFP/Getty Images
سماجی تانا بانا تباہ
اڈوانی نے رتھ یاترا کے دوران اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھارت کے سماجی تانے بانے کوتباہ کردیا۔ ہندووں اور مسلمانوں میں نفرت کی جو خلیج پیدا ہوئی وہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
تصویر: Fotoagentur UNI
مجھ پرجھوٹا الزام
سابق وفاقی وزیر مرلی منوہر جوشی کا کہنا ہے کہ انہیں بابری مسجد انہدام کیس میں جھوٹا پھنسایا جارہا ہے۔ وہ انہدام کے سلسلے میں سازش نہیں کی تھی۔ حالانکہ انہدام کے وقت کی تصویروں میں وہ مسجد سے تھوڑ ی دور پر اوما بھارتی کے ساتھ انتہائی مسرت کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔
تصویر: AP
معافی نہیں مانگوں گی
سابق وزیر سادھوی اوما بھارتی نے بھی ہندووں کے جذبات بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا تھا۔ اوما بھارتی کا کہنا ہے کہ اجودھیا تحریک میں شامل ہونے پر انہیں فخر ہے اور اگر انہیں پھانسی کی سزا بھی دی گئی تو وہ معافی نہیں مانگیں گی۔
تصویر: Fotoagentur UNI
حلف نامے کی خلاف ورزی
بابری مسجد انہدام واقعہ کے دوران اترپردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ وہ مسجد کو کوئی نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔
تصویر: AP
وعدہ تیرا وعدہ
کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو نے 7 دسمبر1992 کو بابری مسجد کواسی جگہ دوبارہ بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ صرف وعدہ ہی رہا۔ اڈوانی کے مطابق’نرسمہاراو اور ان کی کانگریس پارٹی نے ہندووں اورمسلمانوں دونوں کا اعتماد کھودیا۔‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo
کانگریس بھی بے داغ نہیں
بابری مسجد انہدام کے لیے بی جے پی کے ساتھ ہی کانگریس پارٹی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھلوا کر وہاں پوجا کی اجازت دے کر ایک نئے تنازعہ کی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: Imago/Sven Simon
ایک ووٹ یعنی ایک اینٹ
بابری مسجد۔رام جنم بھومی بھارت میں اب بھی ایک اہم سیاسی موضوع ہے۔ بہار میں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی کے لیے ہر ایک ووٹ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک اینٹ کی طرح ہوگا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Armangue
سزا یا باعزت بری
اب پورے بھارت کی نگاہیں 30 ستمبر کو عدالت کے فیصلے کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ آیا بابری مسجد کے انہدام کے مجرموں کو سزا ملے گی یا انہیں باعزت بری کردیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ریاستوں کو سکیورٹی انتظامات بڑھادینے کی ہدایت دی ہے۔
تحریر: جاوید اختر
تصویر: UNI
17 تصاویر1 | 17
تنازعے سے نمٹنا حکومت کی ذمہ داری
ایودھیا میں نئی مسجد کی تعمیر کا نظم و نسق دیکھنے کے لیے تشکیل شدہ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کا اس نئے تنازعے پر کہنا ہے کہ حکومت نے یہ اراضی فراہم کی ہے اور اس مسئلے سے بھی حکومت ہی نمٹے گی۔
فاؤنڈیشن کے سکریٹری اور ترجمان اطہر حسین نے اس حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمیں اس عرضی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ درخواست دینے والو، ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ کامسئلہ ہے۔ ہمیں تو حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر یہ پانچ ایکڑ زمین فراہم کی ہے۔اس لیے اسے ہی یہ دیکھنا ہے کہ یہ متنازعہ ہے یا نہیں۔"
دوسری طرف ضلع کے ایس ڈی ایم اشوک کمار کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق زمین حکومت کی ہے اور اگر عدالت کوئی نوٹس بھیجتی ہے تو اس کا معقول جواب دیا جائے گا۔
اشتہار
بیشتر مسلمانوں کو نئی 'مسجد‘میں کوئی دلچسپی نہیں
خیال رہے کہ اس سے قبل اس نئی مسجد کا سنگ بنیاد سے مسلمانوں کی بیشتر جماعتوں اور تنظیموں نے خود کو الگ کر لیا تھا۔
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نئی 'مسجد‘ کے سنگ بنیاد سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قدم نہ صرف 'شریعت‘ کے خلاف بلکہ بھارت کے وقف قانون کے بھی خلاف ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سینیئر رکن اور سپریم کورٹ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاتھا کہ نئی 'مسجد‘ کا سنگ بنیاد نہ صرف 'شریعت‘ کے خلاف بلکہ بھارت کے وقف قانون کے بھی خلاف ہے۔
ظفر یاب جیلانی کا کہنا تھا'' اگر کوئی غیر شرعی کام ہو رہا ہے تو ہم اس کو طاقت سے تو روک نہیں سکتے۔ جو ایسا کر رہا ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے اور یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس مسجد میں کوئی مسلمان نماز پڑھے گا یا نہیں۔"
بابری مسجد کے انہدام کو ستائیس سال ہو گئے، بھارت میں مظاہرے