ایودھیا کے قریب ہی ایک اور قدیم مسجد مسمار کر دی گئی
صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
19 مئی 2021
بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ میں حکام نے تقریباً سو برس پرانی ایک مسجد کو غیر قانونی بتا کر مسمار کر دیا ہے۔
اشتہار
بھارتی ریاست اتر پردیش میں سنی وقف بورڈ نے 'غریب نواز مسجد' کی مسماری کو غیر قانونی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ حکام کی یہ کارروائی ریاستی ہائی کورٹ کے احکامات و ہدایات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سنی وقف بورڈ نے اس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سنی وقف بورڈ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''مسجد کی پھر سے بحالی، اس معاملے کی اعلی سطح پر عدالتی تفتیش اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گيا ہے۔‘‘
یہ واقعہ ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کا ہے جو مغلیہ دور کی مسمار کی جانے والی معروف بابری مسجد سے تقریباً 56 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا نام 'نواز غریب مسجد' تھا، جو تحصل کے اندر ہی بنی کدہ گاؤں میں تقریبا ایک صدی سے قائم تھی۔ دو روز قبل مقامی حکام نے اس کو بلڈوزر سے ڈھانے کے بعد اس کا ملبہ پاس کی ندی میں پھینک دیا۔
مسلم تنظیموں کا رد عمل
یو پی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر فاروقی کی جانب سے اس حوالے سے میڈیا کے لیے جو بیان جاری کیا گيا ہے، اس میں، ''ضلعی انتظامیہ اور تحصیل کے حکام کی غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ تحصیل کے احاطے میں یہ مسجد گزشتہ تقریباً سو برسوں سے قائم تھی جس پر حکام نے غیر قانونی قبضے کا الزام عائد کرتے ہوئے مسمار کر دیا۔‘‘
بیان میں مزید کہا گيا، ''یہ کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی، طاقت کا بے جا استعمال اور گزشتہ ماہ ہائی کورٹ نے جو احکامات دیے تھے اس کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔‘‘
مسلم پرسنل لاء بورڈ اور کئی دیگر مسلم تنظیموں نے بھی حکومت کی ایما پر اس انہدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مطابق اس مسجد کے بارے میں کسی بھی فریق سے کوئی بھی تنازعہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا،''یہ مسجد سنی وقف بوڑد کی دستاویزات میں درج ہے۔ مقامی افسران نے البتہ مارچ میں مسجد کی کمیٹی سے اس کی دستاویزات طلب کی تھیں اور اسی لیے مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ حکومت نے بغیر کسی نوٹس کے مسجد ڈھا دی۔‘‘
واضح رہے کہ آلہ آباد ہائی کورٹ نے 24 اپریل کو اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ کسی بھی جگہ سے انخلا، لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے یا پھر انہیں اجاڑنے سے متعلق کسی بھی سول یا پھر دیگر عدالتوں کی جانب سے جو فیصلے سنائے گئے ہیں اگر اس پر عمل نہیں ہوا ہے تو اس پر آئندہ 31 مئی تک عمل کرنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔
اشتہار
مقامی انتظامیہ کا رد عمل
لیکن سرکاری حکام نے اپنی اس کارروائی کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ انہوں نے عدالت کے حکم کے مطابق یہ کارروائی کی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے اپنے ایک بیان میں مسجد کے بجائے ایک متنازعہ رہائشی عمارت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ رام سنیہی گھاٹ کی تحصیل کے رہائشی کملپکس میں ایس ڈی ایم کی رہائش کے سامنے ایک غیر قانونی عمارت تھی۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آدرش سنگھ کا کہنا ہے، ''متعلقہ افراد کو 15مارچ کو ایک نوٹس جاری کیا گيا تھا اور ان سے اس بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔ لیکن وہاں رہنے والے لوگ افراد نوٹس کا جواب دینے کے بجائے فرار ہو گئے۔ حکام نے 18 مارچ کو ہی اس عمارت کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔‘‘
مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے ضلع بارہ بنکی اور ایودھیا سمیت آس پڑوس میں حالات قدر کشیدہ ہیں۔ ان کے مطابق کورنا وائرس کی وجہ سے سخت بندشیں عائد ہیں اس لیے لوگ گھروں میں قید ہیں۔ تاہم حکام نے علاقے میں سکیورٹی کا زبردست پہرہ لگا رکھا ہے۔ لکھنؤ سے کئی اہم مسلم شخصیات نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم حکام کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
لکھنؤ میں ایک سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ ریاست میں کورونا کی ابتر صورت حال کے پیش نظر یوگی کی حکومت اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے اور اس طرح کی کارروائیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی سے مذہبی خطوط پر تقسیم ریاست میں مزید تفرقہ بازی سے لوگوں کی توجہ وبا کے بجائے دوسرے امور کی جانب مبذول کی جا سکے۔
بابری مسجد کے انہدام کو ستائیس سال ہو گئے، بھارت میں مظاہرے
02:13
تحصل رام سنیہی گھاٹ کے پاس ہی ایودھیا واقع ہے جہاں 25 برس قبل سخت گیر نظریات کے حامل ہندو قوم پرستوں نے تقریباً پانچ سو برس قدیم مغلیہ دور کی معروف بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کر دیا تھا۔ مسلم تنظیموں نے اس مسجد کے لیے بھی طویل جد وجہد کی تاہم انہیں حکومت، حکام اور عدالت کے روپے سے مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ لگا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کے انہدام کو غلط بتایا تھا تاہم عدالت نے اس کے باوجود اس کی جگہ رام مندر کے تعمیر کی اجازت دی جہاں اس وقت مغیلہ دور کی بابری مسجد کے مقام پر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔
بابری مسجد انہدام کیس: مجرم کون؟
بھارت کے اجودھیا میں 6 دسمبر1992 کوتقریباً 400 سالہ قدیم تاریخی بابری مسجد کو منہدم کردینے کے کیس میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت 30 ستمبر کو فیصلہ سنانے والی ہے۔
تصویر: AP
انتظار کی گھڑی ختم
بابری مسجد کے انہدام کے تقریباً 28 برس بعد عدالت یہ فیصلہ سنانے جارہی ہے کہ اس مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کرنے والوں میں کون کون لوگ شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D .E. Curran
کون مجرم ہے؟
سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، بی جے پی کے رہنما مرلی منوہر جوشی، اومابھارتی، ونئے کٹیار،کلیان سنگھ، سادھوی رتھمبرا 32 ملزمین میں شامل ہیں۔ دیگر ملزمین میں اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا وفات پاچکے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
کیا ہوگا انجام
بابری مسجد انہدام میں دو کیس دائر کیے گئے۔ ایک لاکھوں نامعلوم ’کارسیوکوں‘ کے خلاف اور دوسرا انہدام کی سازش تیار کرنے والے آٹھ افراد کے خلاف۔ شدت پسند ہندووں کی طر ف سے صحافیوں پر حملوں کے 47 مزید کیس بھی دائر کیے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. E. Curran
سینکڑوں ہلاکتیں
بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں فسادت پھوٹ پڑے تھے۔جن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 1800افراد مارے گئے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
دیرینہ مطالبہ
مسلمان بابری مسجد کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ ہر برس چھ دسمبر کو ’یوم سیاہ‘ مناتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Ghosh
نئی شناخت
قوم پرست ہندو تنظیمیں 6 دسمبر کو ’یوم شجاعت‘ کے طور پر مناتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دن بھارت میں ہندووں کو ایک نئی شناخت ملی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
رام مندر
منہدم بابری مسجد کی جگہ اب ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ایک برس قبل اسی دن جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔
تصویر: AFP/P. Singh
کچھ بچا تو نہیں نا؟
لال کرشن اڈوانی نے اپنی خودنوشت ’میراوطن میری زندگی‘ میں لکھا ہے کہ جب بابری مسجد منہدم ہوجانے کے بعد وہ اجودھیا سے لکھنؤ جارہے تھے تو ایک اعلی سرکاری افسر نے ا ن سے پوچھا ”اڈوانی جی، کچھ بچا تو نہیں نا؟ بالکل صاف کردیا نا؟“
تصویر: AFP/Getty Images
سماجی تانا بانا تباہ
اڈوانی نے رتھ یاترا کے دوران اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھارت کے سماجی تانے بانے کوتباہ کردیا۔ ہندووں اور مسلمانوں میں نفرت کی جو خلیج پیدا ہوئی وہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
تصویر: Fotoagentur UNI
مجھ پرجھوٹا الزام
سابق وفاقی وزیر مرلی منوہر جوشی کا کہنا ہے کہ انہیں بابری مسجد انہدام کیس میں جھوٹا پھنسایا جارہا ہے۔ وہ انہدام کے سلسلے میں سازش نہیں کی تھی۔ حالانکہ انہدام کے وقت کی تصویروں میں وہ مسجد سے تھوڑ ی دور پر اوما بھارتی کے ساتھ انتہائی مسرت کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔
تصویر: AP
معافی نہیں مانگوں گی
سابق وزیر سادھوی اوما بھارتی نے بھی ہندووں کے جذبات بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا تھا۔ اوما بھارتی کا کہنا ہے کہ اجودھیا تحریک میں شامل ہونے پر انہیں فخر ہے اور اگر انہیں پھانسی کی سزا بھی دی گئی تو وہ معافی نہیں مانگیں گی۔
تصویر: Fotoagentur UNI
حلف نامے کی خلاف ورزی
بابری مسجد انہدام واقعہ کے دوران اترپردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ وہ مسجد کو کوئی نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔
تصویر: AP
وعدہ تیرا وعدہ
کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو نے 7 دسمبر1992 کو بابری مسجد کواسی جگہ دوبارہ بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ صرف وعدہ ہی رہا۔ اڈوانی کے مطابق’نرسمہاراو اور ان کی کانگریس پارٹی نے ہندووں اورمسلمانوں دونوں کا اعتماد کھودیا۔‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo
کانگریس بھی بے داغ نہیں
بابری مسجد انہدام کے لیے بی جے پی کے ساتھ ہی کانگریس پارٹی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھلوا کر وہاں پوجا کی اجازت دے کر ایک نئے تنازعہ کی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: Imago/Sven Simon
ایک ووٹ یعنی ایک اینٹ
بابری مسجد۔رام جنم بھومی بھارت میں اب بھی ایک اہم سیاسی موضوع ہے۔ بہار میں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی کے لیے ہر ایک ووٹ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک اینٹ کی طرح ہوگا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Armangue
سزا یا باعزت بری
اب پورے بھارت کی نگاہیں 30 ستمبر کو عدالت کے فیصلے کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ آیا بابری مسجد کے انہدام کے مجرموں کو سزا ملے گی یا انہیں باعزت بری کردیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ریاستوں کو سکیورٹی انتظامات بڑھادینے کی ہدایت دی ہے۔
تحریر: جاوید اختر