کونسے ممالک جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں؟
28 فروری 2022
یوکرائن جنگ کے تناظر میں صدر پوٹن کی جانب سے روسی جوہری ہتھیاروں کو الرٹ پر رکھنے کے حکم کے بعد دنیا میں ایک مرتبہ پھر ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ماضی میں بھارت اور پاکستان نے بھی جوہری حملوں کی دھمکی دی تھی۔
اشتہار
یوکرائن میں جاری روسی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں مغربی ممالک کی طرف سے صدر پوٹن سمیت ماسکو پر سخت ترین پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ملکی جوہری ہتھیاروں کا کھل کر نام لیے بغیر انہیں خصوصی الرٹ پر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ماسکو حکومت کے ایک بیان کے مطابق پوٹن نے نیٹو ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے جارحانہ بیانات کے تناظر میں ملکی وزیر دفاع اور چیف آف جنرل اسٹاف کو کہا کہ وہ روسی فوج کی 'ڈیٹیرنٹ فورسز‘ کو خصوصی الرٹ کی سطح پر رکھیں۔
اشتہار
سوویت یونین اور امریکا کی ممکنہ جوہری جنگ
یہ ایسا پہلا موقع نہیں، جب کسی جوہری صلاحیت کے حامل ملک نے بالواسطہ یا بلاواسطہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اکتوبر سن 1962 میں سرد جنگ کے دوران سوویت رہنما نکیتا خروشچف اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے درمیان تیرہ روزہ کشیدگی نے ایٹمی جنگ کے خدشات کو جنم دیا تھا۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
چودہ اکتوبر کے روز امریکا سے صرف 145 کلومیٹر (90 میل) کے فاصلے پر امریکی جاسوسی طیارے نے سابقہ سوویت یونین کے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کے لانچ پیڈ کی تصاویر بنائی تھیں۔ امریکا نے اپنی سرزمین کے قریب سوویت جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کے خلاف شدید غصے کا اظہار کیا۔ صدر کینیڈی نے خروشچف کو خبردار کیا کہ اگر یہ میزائل یہاں سے نا ہٹائے گئے تو امریکا سوویت یونین پر حملہ کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ چالیس ہزار فوجیوں کے ساتھ کیوبا کی سمندری حدود بلاک کر دی جائیں گی۔
سوویت یونین کا زوال اوراس کے بعد وجود میں آنے والی ریاستیں
11 مارچ 1990 کو لیتھوانیا نے سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تاہم سویت یونین نے اس جمہوریہ کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ اس کا نہایت سخت ردعمل سامنے آیا اور یکے بعد دیگرے سوویت یونین کی 15 ریاستیں الگ ممالک بن گئیں۔
بعدازاں سوویت رہنما خروشچف نے اس شرط پر میزائل پیچھے ہٹانے کا اعلان کیا کہ اس کے بدلے میں امریکا کیوبا پر چڑھائی نہیں کرے گا اور ترکی سے اپنے جیوپیٹر میزائل واپس لے لے گا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ
بھارت اور پاکستان سن 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کر چکے تھے۔ مئی سن 2002 میں ان دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان کشمیر تنازعہ پر ایک مرتبہ پھر کشیدگی نے شدت اختیار کرلی تھی۔
پاکستان کے چند اہم میزائل
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، کہوٹا ریسرچ لیبارٹریز، سپارکو اور ڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آرگنائزیشن نے باہمی تعاون سے میزائل ٹیکنالوجی پر تحقیق کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کو ’’حتف‘‘ کا نام دیا گیا۔
تصویر: ISPR
پاکستانی میزائل اور ان کی رینج
پاکستانی بلیسٹک میزائل پروگرام کم فاصلے سے لے کر درمیانے فاصلے تک مار کی صلاحیت کے حامل میزائلوں سے لیس ہے۔
حتف ون میزائل
حتف ون پاکستان کا تیار کردہ پہلا شارٹ رینج بلیسٹک میزائل تھا، جس کی ابتدائی رینج 70 سے 100 کلومیٹر تھی ۔ اس میزائل کو سپارکو نے دیگر اداروں کے تعاون سے 1989 میں تیار کیا ۔ اسے 1992 میں پاکستانی فوج کے حوالے کیا گیا۔
تصویر: ISPR
حتف آٹھ، رعد کروز میزائل
حتف آٹھ یا رعد ٹو ٹربو جیٹ پاور کروز میزائل ہے۔ پاکستان نے اس میزائل کے تجربات کا آغاز اگست 2007 میں کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق متعدد تجربات کے بعد جنوری 2016 میں کیا جانے والا تجربہ اب تک کا کامیاب ترین تجربہ تھا۔ اس میزائل کی رینج 350 کلومیٹر تک ہے۔
تصویر: ISPR
حتف سکس، شاہین ٹو میزائل
شاہین ٹو میڈیم رینج بلیسٹک میزائل دراصل شاہین ون میزائل کا اپ گریڈ ورژن ہے جسے ابتدا میں شاہین ون میزائل کے ساتھ سیکنڈ سٹیج موٹر کے طور پر لگایا گیا تھا۔ سنہ 2000 میں منظر عام آنے والے اس میزائل کا پہلا تجربہ 2004 میں کیا گیا جب کہ آخری ٹریننگ لانچ تجربہ 2014 میں کیا گیا تھا ۔ اس کی رینج 1500 سے 2000 تک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
حتف ٹو، ابدالی میزائل
حتف ٹو یا ابدالی شارٹ رینج بلیسٹک کو ابتدائی دور پر حتف ون میزائل کے ٹو اسٹیج ورژن کے طور پر تیار کیا گیا اور حتف ون میزائل کے نچلے حصے میں ٹھوس پروپیلنٹ (وہ قوت جو میزائل کی رینج بڑھاتی ہے) کے طور پر لگایا گیا تھا۔ 1997 میں اسے سنگل سٹیج میزائل میں اپ گریڈ کیا گیا۔ اس کی رینج 280 سے 400 کلومیٹر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
حتف فائیو، غوری میزائل
پاکستان نے حتف فائیو میزائل کی تیاری کا آغاز 80 کے عشرے میں کیا جسے بعد ازاں غوری میزائل کا نام دیا گیا اور باقاعدہ ٹیسٹ 1998 میں کیا گیا۔ غوری ٹو بلیسٹک میزائل کی تیاری میں اسٹیل کی جگہ ایلومینیم کا استعمال کیا گیا جس سے اس کی رینج 1800 کلومیٹر تک بڑھ گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
ابادیل میزائل
میزائل ٹیکنالوجی میں پاکستان کا اہم ہتھیار ابادیل میزائل ہے۔ یہ میزائل ایک وقت میں 2200 کلومیٹر تک کئی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس میزائل کو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کے سائنسدانوں اور انجینئرز نے تیا ر کیا اور اس کا پہلا تجربہ 24 جنوری 2017 میں کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AA/Pakistani Army Handout
حتف فور، شاہین ون میزائل
حتف فور یا شاہین ون میزائل کی تیاری کا آغاز پاکستان نے سنہ 1993 میں کیا جس کا پہلا تجربہ اپریل 1999 میں کیا گیا۔ بعد ازاں 2002 سے 2010 تک اس کو اپ ڈیٹ کر کے مزید تجربات کئے گئے۔ اس میزائل کی رینج 750 سے 900 کلومیٹر ہے جسے مارچ 2003میں پاکستان آرمی کے حوالے کیا گیا ۔
تصویر: picture alliance / dpa
حتف سکس، شاہین ٹو میزائل
شاہین ٹو میڈیم رینج بلیسٹک میزائل دراصل شاہین ون میزائل کا اپ گریڈ ورژن ہے جسے ابتدا میں شاہین ون میزائل کے ساتھ سیکنڈ سٹیج موٹر کے طور پر لگایا گیا تھا۔ سنہ 2000 میں منظر عام آنے والے اس میزائل کا پہلا تجربہ 2004 میں کیا گیا جب کہ آخری ٹریننگ لانچ تجربہ 2014 میں کیا گیا تھا ۔ اس کی رینج 1500 سے 2000 تک ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
9 تصاویر1 | 9
بھارت نے 13 دسمبر 2001 کو ہونے والے نئی دہلی میں پارلیمنٹ پر حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔ اس حملے میں چودہ افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد اپریل 2002 ء میں پاکستانی فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے خبردار کیا تھا کہ بھارت کی جانب سے حملوں کے جواب میں وہ جوہری ہتھیاروں کا تباہ کن استعمال کر سکتے ہیں۔ اُس وقت کے بھارتی وزیر دفاع جیورج فرنانڈس نے جواب میں کہا، ''بھارت جوہری حملہ برداشت کر سکتا ہے لیکن پاکستان نہیں۔‘‘
آئندہ دو سالوں کے دوران نئی دہلی اور اسلام آباد کی طرف سے ایک دوسرے کے مقابلے میں میزائلوں کے تجربے کیے جاتے رہے لیکن پھر واشنگٹن کے دباؤ کی وجہ سے تناؤ میں کمی ہوتی گئی۔ نومبر سن 2003ء میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد جنوری 2004ء میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/R. Ozawa
10 تصاویر1 | 10
امریکا کے ہیروشیما پر ایٹم بم حملے
امریکا ایسا واحد ملک ہے، جو اب تک جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر چکا ہے۔ سن 1945 میں دو جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی حملوں میں دو لاکھ چودہ ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کے باعث جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اور دوسری عالمی جنگ ختم ہوگئی۔
ع آ / ا ا (اے ایف پی)
روسی حملے کے خلاف یوکرائن کا ردعمل کیسا ہے؟
اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ روسی افواج یوکرائنی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ حملے کے جواب میں یوکرائن میں کیا ہو رہا ہے یعنی حکومت، فوج اور شہریوں کا ردعمل کیا ہے؟ یہ درج ذیل تصویر میں ملاحظہ کریں:
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
فوج کے مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ
روس نے بدھ 22 فروری کو مشرقی یوکرائنی علیحدگی پسند علاقوں ڈونٹیسک اور لوہانسک میں فوجی دستوں کو ’امن قائم کرنے والے فوجی دستے‘ قرار دے کر داخل کیا تھا۔ ان دونوں علاقوں کو روس نے آزاد ریاستوں کے طور پر بھی تسلیم کر لیا ہے۔ جمعرات کو روس نے یوکرائن پر بڑا حملہ بھی کر دیا۔ صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ یوکرائن کو ’غیر فوجی‘ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یوکرائنی فوجی اہداف کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تصویر: Aris Messinis/AFP/Getty Images
’یوکرائن اپنا دفاع کرے گا‘
یوکرائنی وزیر دفاع دیمترو کُولیبا نے روسی فوجی کارروائی کو ایک بڑا حملہ قرار دیا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ملک اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ جیتے گا۔ اس خطے میں روس کے بعد سب سے بڑی فوج بھی یوکرائن کی ہے لیکن روسی عسکری طاقت کے سامنے یوکرائنی حیثیت ’بونے‘ جیسی ہے۔ اس تصویر میں یوکرائنی ٹینک ڈونیٹسک علاقے کے شہر ماریوپول میں داخل ہو رہے ہیں۔
تصویر: Carlos Barria/REUTERS
روسی حملے کا وقت علی الصبح
روس کے علی الصبح شروع کیے جانے والے حملے میں کییف، خارکیف اور اوڈیسا میں میزائل داغے گئے اور ان کے دھماکوں سے شہری جاگ اٹھے۔ روسی فوج کا دعویٰ ہے کہ حملے میں شہری علاقوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ روسی شہری ہوابازی کی ایجنسی نے یوکرائنی فضائی زون کو فعال جنگی زون قرار دے دیا ہے۔ کییف کی زیرزمین ٹرین سسٹم کو خالی کر کے شہریوں کو اس میں پناہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تصویر: AFP via Getty Images
پہلے فضائی اور پھر زمینی حملہ
کییف (ایک گرا ہوا میزائل) سمیت دوسرے شہروں پر میزائل داغے جانے کے بعد روس اور بیلاروس کے علاوہ کریمیا سے روسی فوجی دستے یوکرائن میں داخل ہو گئے۔ روسی زبان میں کی گئی ایک جذباتی اپیل میں یوکرائنی صدر وولودومیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک امن چاہتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے کی صورت میں فرار نہیں ہوں گے بلکہ ملک کا دفاع کریں گے اور اپنے آزادی، زندگیوں اور بچوں کا بھی دفاع کریں گے۔
تصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS
یوکرائنی شہریوں کا دوسرے مقامات کی جانب فرار
یوکرائنی صدر زیلنسکی نے ملک میں مارشل لا کا نفاذ کر دیا ہے اور لوگوں بلاوجہ خوف و ہیجان میں مبتلا ہوئے بغیر گھروں میں مقیم رہنے کی تلقین کی ہے۔ اس اعلان کے باوجود بے شمار یوکرائنی شہریوں نے فرار میں عافیت سمجھی ہے۔ لوگوں کی منتقلی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا۔ اس تصویر میں مشرقی یوکرائن میں لوگ فرار ہو کر مغربی علاقے کی جانب جا رہے ہیں۔
تصویر: Chris McGrath/Getty Images
خریداری کے لیے قطاریں
دارالحکومت کییف میں پانی اور خوراک کے حصول کے لیے اسٹورز پر لوگوں کی طویل قطاریں بھی دیکھی گئیں۔ بعض لوگ محفوظ علاقوں کی جانب روانہ ہو رہے ہیں۔ کئی افراد شہر میں رہتے ہوئے مورچوں یا بنکروں میں پناہ لینے کو مناسب خیال کرتے ہیں۔ کیش مشینوں پر بھی بھیڑ دیکھی گئی۔ یہ تصویر مغربی یوکرائنی شہر لاویو کی ہے۔ لوگوں کو موٹر کاروں میں ایندھن بھروانے کی فکر بھی لاحق ہے۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP Photo/picture alliance
ملے جُلےجذبات
یوکرائنی عوام میں خوف اور بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ ابھی تک کئی یوکرائنی شہریوں کو یقین نہیں کہ روسی افواج ان کے ملک میں داخل ہو چکی ہیں۔ وسطی یورپی ممالک میں یوکرائنی مہاجرین کی آمد کی پیش بندی شروع ہے۔ انسانی ہمدردی کے گروپوں نے ممکنہ انسانی بحران کے جنم لینے سے خبردار کیا ہے۔ تصویر میں یہ جوڑا مشکل فیصلہ کر کے پولینڈ یا ملک کے مغرب کی جانب روانہ ہے۔