ایٹمی مذاکرات کے ایک نئے دور پر اتفاق کی اطلاع ہنوز غیر واضح
24 مئی 2012
عراقی دار الحکومت بغداد میں گزشتہ روز شروع ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دن آج ایران کے اس بیان سے قبل یورپی یونین کے اہلکاروں نے کہا تھا کہ تہران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام پر ایک عرصے سے چلی آ رہی کشیدگی کے بعد بغداد مذاکرات میں کسی حد تک پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔
امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس اور چین کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے دوسرے روز ایران کے ایک ترجمان مہدی محمدی نے کہا، ’مذاکرات میں شامل 6 بڑی قوتیں تہران کے پُرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حق کی یقین دہانی کرانے میں ناکام ہو گئی ہیں۔‘ دوسری جانب یورپی یونین کے ترجمان ’میشائیل من‘ نے چھ بڑی طاقتوں کی طرف سے بغداد منعقدہ جوہری مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’ہم پیش رفت کر رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں‘۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ دو روزہ مذاکرات کے اختتام پذیر ہونے کے بعد ایران کے ساتھ اُس کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق بات چیت کا کیا رُخ رہے گا۔ یہ مذاکرات آج جمعرات کو ہی شام تک ختم ہو جائیں گے۔
ایران نے آج جمعرات کو دنیا کی بڑی طاقتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اُس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق مذاکرات کی فضا مشکل بناتے ہوئے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔ تہران نے اسے اُس کے مبینہ خفیہ ایٹمی پروگرام سے متعلق پائے جانے والے خوف کو دور کرنے کی سفارتی کوشش میں تعطل کا سگنل قرار دیا ہے۔
ایران نے مذاکرات کے دوسرے روز اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ اونچے درجے کی یورینیم کی افزودگی روکنے سے متعلق کسی ممکنہ معاہدے کے لیے ضروری ہے کہ تہران پر لگی پابندیاں ہٹائی جائیں، جبکہ مغربی طاقتوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ پہلے اپنی جوہری سرگرمیاں بند کرے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران نے برابری کے اصول پر قائم رہتے ہوئے اُن وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا، جن کا مغربی طاقتوں نے بغداد مذاکرات سے پہلے استنبول منعقدہ تیاری کے طور پر ابتدائی بات چیت میں ایران کو مراعات دینے کے حوالے سے کیے تھے۔ ایران کی نیوز ایجنسی ISNA کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی سفارتکار، جو مذاکرات میں شامل ہیں، کا خیال ہے کہ مذاکراتی فریقوں کا بغداد کے مقابلے میں استنبول میں رویہ زیادہ مثبت اور حوصلہ افزا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا تہران اس غیر واضح صورتحال میں مغرب کے ساتھ مستقبل میں مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔
km/ia Reuters