مارشل آئلینڈز کا پاکستان اور بھارت کے خلاف مقدمہ
7 مارچ 2016پیر کے روز مارشل آئلینڈز نے دا ہیگ میں واقع اقوام متحدہ کے ٹربیونل کے سامنے جوہری دھماکوں کی ہولناک اور بھیانک تصویر پیش کی۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں اس کے بعض جزائر پر امریکا کی جانب سے کیے گئے ایٹمی تجربوں نے زبردست تباہی مچائی تھی۔
ایک غیر معمولی اور غیر متوقع قانونی کارروائی میں مارشل آئلینڈز نے بھارت، پاکستان اور برطانیہ کے خلاف مقدمہ کر دیا ہے۔ اس ملک کے طرف سے مقدمے کے وکلاء کا کہنا ہے کہ وہ جوہری تباہ کاریوں اور اس سے منسلک خطرات کے بارے میں نئی معلومات پیش کریں گے۔
ٹونی دے بروم نامی وکیل کا عدالت کے سامنے میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میرے ملک کے بہت سے جزیرے (جوہری دھماکوں) کے سبب پگھل گئے تھے، اور کئی جزائر پر ہزار سال تک کوئی جان دار آباد نہیں ہو سکتا۔‘‘
دے بروم نے اس موقع پر یکم مارچ انیس سو چوّن کو ’کاسِل براوو‘ نامی جوہری تجربے کو یاد کیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ ’’میں نے دیکھا کہ آسمان خون نما سرخ ہو گیا تھا۔‘‘
یہ تصویر کشی امریکا کی جانب سے کیے گئے ہائڈروجن بم کے تجربے کی تھی۔ یہ بم انیس سو پینتالیس میں ہیروشیما پر کیے گئے دھماکے سے ایک ہزار گنا طاقت ور تھا۔
دے بروم کا مزید کہنا تھا، ’’بے شمار لوگ مارے گئے تھے، اور نومولد بچے نقائص کے ساتھ پیدا ہونے لگے۔‘‘
ان تمام تر تفصیلات کے باوجود دا ہیگ میں قائم عدالت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا کہ بھارت، پاکستان اور برطانیہ کو مقدمے میں شامل کیا جاسکے۔ برطانیہ کی طرف سے اس مقدمے پر ’’ابتدائی اعتراضات‘‘ اٹھائے گئے ہیں۔
مارشل آئلینڈز کا مؤقف ہے کہ انیس سو اڑسٹھ میں نافذ کی گئی ’نان پرولفریشن ٹریٹی‘ کے باوجود جوہری طاقتیں جوہری عدم پھلاؤ کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ برطانیہ این پی ٹی پر دستخط کر چکا ہے مگر بھارت اور پاکستان نے اس معاہدے کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔
مارشل آئلینڈز دیگر ممالک، بشمول اسرائیل کو بھی اس مقدمے میں داخل کرنا چاہتا ہے، حالاں کہ اسرائیل نے کبھی جوہری ہتھیار رکھنے کا سرکاری طور پر دعویٰ نہیں کیا۔
یہ عدالتی کارروائی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب دنیا شمالی کوریا کی جانب سے کیے گئے جوہری تجربات کی وجہ سے فکر مند ہے۔