ایپک سمٹ:مفاد پرستی کے دور میں ایشیا میں آزاد تجارت
عاطف توقیر
10 نومبر 2017
ویت نام ایشیا پیسفک اقتصادی تعاون (ایپک) کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس اجلاس میں ایک طرف ’اپنے مفادات پہلے‘ کا نعرہ لگانے والے رہنما بھی موجود ہیں اور آزاد عالمی تجارت کے فائدوں کے حامی بھی۔
اشتہار
مغربی دنیا میں آزاد تجارت پر عدم اعتماد میں حالیہ کچھ برسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس رجحان کے درپردہ متعدد وجوہات ہیں۔ یورپ میں بین الاوقیانوسی آزاد تجارتی معاہدے کے خلاف حالیہ برسوں میں بڑے عوامی مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ معاہدہ یورپ اور امریکا کے درمیان تجارت کو وسعت دینے سے عبارت ہے اور اگر یہ ڈیل طے پاتی ہے، تو یہ دنیا کی سب سے بڑی تجارتی ڈیل ہو گی۔ تاہم یورپ میں اس معاہدے کے ناقدین کی تعداد بے تحاشا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکا میں ماحولیات، صارفین کے تحفظ اور صحت کے معیارات اس یورپی سطح کے نہیں اور اس ڈیل کے بعد یورپی منڈیوں میں ناقص امریکی اشیا پہنچنا شروع ہو جائیں گی۔ کینیڈا کے ساتھ یورپی ڈیل پر بھی اسی انداز کے تحفظات ظاہر کیے گئے تھے، تاہم تمام تر مظاہروں کے باوجود ستمبر میں اس ڈیل پر عبوری عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔
جنوری میں عہدہ صدارت سنبھالنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حکم نامے کے تحت اپنے ملک کو ’بین الکاہلی پاٹنرشپ (ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ) یا ٹی پی پی سے باہر نکال لیا تھا۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں طے پانے والی اس ڈیل کو امریکا اور پیسیفک خطے کے درمیان مضبوط تعلقات کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا تھا۔
ہینوور صنعتی میلہ، جہاں روبوٹس راج کرتے ہیں
دنیا کے سب سے بڑے ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں ستّر ممالک سے تعلق رکھنے والی ساڑھے چھ ہزار کمپنیوں نے لاتعداد اسٹالز لگائے ہیں۔ چوبیس تا اٹھائیس اپریل تک جاری رہنے والی اس نمائش میں زیادہ توجہ روبوٹس کو ہی حاصل ہے۔
تصویر: Deutsche Messe AG
روبوٹس ہی روبوٹس
ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں مختلف ہالز میں تا حد نظر روبوٹس ہی نظر آ رہے ہیں۔ کچھ بہت بڑے ہیں تو کچھ چھوٹے۔ لیکن ان میں ایک مشترکہ خصوصیت ضرور ہے، اور وہ یہ کہ یہ سب انسانوں کی مدد کے لیے کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/H. Böhme
میرا کھلونا، آپ کا کھلونا
تصویر میں نظر آنے والا یہ ’دوستانہ روبوٹ‘ لیگو کے ساتھ کھیلنے کا شوقین ہے۔ جرمن کمپنی Schunk مکمل روبوٹس نہیں بناتی بلکہ صرف ان کے ہاتھ تیار کرتی ہے۔ اس کمپنی کی جدید ٹیکنالوجی دنیا بھر میں مشہور ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
صنعتی آئی پیڈ
حالیہ عرصے میں ایپل کمپنی کی ترقی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اب روبوٹس آئی پیڈز کو کو آپریٹ کرنے میں بھی ماہر ہو گئے ہیں۔ ہینوور صنعتی میلے کے سربراہ ژوخن کؤکلر کے مطابق فیکٹریوں میں اب روبوٹس کو آئی پیڈز چلانے کے لیے استمعال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
خبردار! حفاطتی جوتے پہن لیں
آج کل فیکٹریوں میں بہت سے سائن بورڈز آویزاں ہوتے ہیں، جن پر مختلف قسم کی وارننگز اور ہدایات درج ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ تو ان معلومات پر نظر رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم مستقبل قریب میں ہمیں ایسی سمارٹ گھڑیاں میسر ہوں گی، جو ہمیں حفاظتی اقدامات سے باخبر کرتی رہیں گی۔ خاص مقام پر داخل ہوتے ہی فیکٹری ملازم کو اس سمارٹ واچ سے خودکار طریقے سے میسج ملے گا کہ جوتے پہن لیے جائیں۔
تصویر: Comau
تاریخ سے سبق
نت نئی ایجادات تو ہوتی ہی رہیں گی لیکن اس تجرباتی عمل میں ماضی کا مشاہدہ بھی اہم ہے۔ ٹھیک ستّر برس قبل ہینوور میں پہلے ’ایکسپورٹ فیئر‘ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس اکیس روزہ ایونٹ میں بتیس ملین ڈالر مالیت کے برابر ایکسپورٹ کانٹریکٹس پر مذاکرات کیے گئے تھے۔ اس مرتبہ اس تجارتی میلے کے ایڈیشن میں اسی مناسبت سے جرمن کار ساز ادارے فولکس ویگن نے اپنے مشہور زمانہ T1 وین کے جدید ماڈل کی نمائش بھی کی۔
تصویر: DW/H. Böhme
پارٹنر ملک پولینڈ کا حصہ
رواں برس کے ہینوور صںعتی تجارتی میلے کا سرکاری پارٹنر ملک پولینڈ ہے۔ یہ جدید الیکٹرک بس Ursus نامی فرم نے بنائی ہے، جو پولش جرمن پارٹنر شپ کا نتیجہ ہے۔ جرمنی کمپنی Ziehl-Abegg نے بھی اس ماحول دوست بس کو بنانے میں ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
یہ کلاؤڈ ہے
ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں اس مرتبہ ای کامرس کے بڑے ادارے ایمازون کی نمائندگی بھی توجہ مرکز بن رہی ہے۔ کلاؤڈ سروسز یعنی ڈیٹا کو ریموٹ سرورز پر اسٹور کرنے پر بڑی سرمایا کاری کی جا رہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو مستقبل میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
مکمل ’انالوگ‘
اگرچہ ہینوور صنعتی تجارتی میلے پیداواری عمل کی ڈیجیٹلائزشن پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ہر چیز ڈیجیٹل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہ اوزار۔ کسی کمپیوٹر سرور کے خراب یا کسی روبوٹ کے زنگ آلود ہونے پر اس ’انالوگ‘ ہتھوڑے کا استعمال مکمل حل ہو سکتا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
’اِنٹیگریٹڈ انڈسٹری‘
اپنی نوعیت کی یہ سب سے بڑی سالانہ عالمی نمائش ہینوور میں اس سال مجموعی طور پر 70 ویں مرتبہ منعقد کی جا رہی ہے اور اس نمائش کا اہم ترین موضوع وہ ’اِنٹیگریٹڈ انڈسٹری‘ ہے، جس میں بین الاقوامی سطح پر روبوٹس اب زیادہ سے زیادہ اہم اور متنوع کردار کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Z. Abbany
ساڑھے چھ ہزار سے زائد صنعتی نمائش کنندہ اداروں کی شمولیت
اس مرتبہ اس عالمی تجارتی میلے میں مختلف براعظموں میں بیسیوں مختلف ممالک سے آنے والے کُل ساڑھے چھ ہزار سے زائد صنعتی نمائش کنندہ ادارے حصہ لے رہے ہیں اور مجموعی طور پر اس میلے کو دیکھنے کے لیے آنے والے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی تعداد قریب دو لاکھ تک رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: DW/Z. Abbany
میرکل نے افتتاح کیا
شمالی جرمنی کے شہر ہینوور میں دنیا کے سب بڑے صنعتی تجارتی میلے کا جرمن چانسلر اور پولینڈ کی وزیر اعظم نے مل کر کیا۔ اس سال اس پانچ روزہ عالمی تجارتی نمائش کا خصوصی پارٹنر ملک پولینڈ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
11 تصاویر1 | 11
اس معاہدے میں پسیفک کے خطے کی بارہ اقوام شامل تھیں، جس میں آسٹریلیا، برونائی، کینیڈا، چلی، جاپان، ملائشیا، میکسکو، نیوزی لینڈ، پیرو، سنگاپور، ویتنام اور امریکا شامل تھے۔ اس ڈیل پر عمل درآمد کا مطلب عالمی اقتصادی پیدوار کے چالیس فیصد اور عالمی تجارت کے 26 فیصد کا احاطہ کرنا تھا۔ ٹرمپ اس بابت دلیل دیتے ہیں کہ امریکا اس ڈیل سے بہتر معاہدہ کر سکتا ہے، جس سے اس کے مفادات کو فائدہ پہنچے گا۔
ہیمبرگ میں قائم جرمن ایشیا پیسیفک کاروباری ایسوسی ایشن (OAV)نامی ادارے سے وابستہ ڈینیل مؤلر کا کہنا ہے، ’’ہم اس بابت یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کثیرالاقومی تجارتی معاہدے شدید مسائل کا شکار ہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا شکار ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی اقتصادی قوتیں ہیں۔‘‘
ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں شریک پاکستانی نمائش کنندگان
02:58
مؤلر کے مطابق ویتنام جیسے ممالک جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی برآمدات میں نمو ہو اور ان کے ہاں صنعتی شعبے میں ترقی آئے۔ ’’ایسے ممالک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی آزاد تحریک سے استفادہ کریں۔ آزاد تجارتی معاہدوں کو لاحق موجودہ مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ایسے ہی ممالک ہو رہے ہیں۔ اسی لیے اب یہ ممالک دیگر جہتوں میں دیکھ رہے ہیں اور متنادل تلاش کر رہےہیں۔‘‘
ویتنام میں جاری ایشیا پیسیفک اقتصادی تعاون کا سربراہی اجلاس اسی موضوع پر بحث کر رہا ہے۔ اس اجلاس میں شریک 21 ممالک کی کوشش ہے کہ برآمدی مصنوعات کی ترسیل کے راستے کی رکاوٹیں ختم کی جائیں اور خطے میں آزاد تجارت کی راہ ہم وار ہو۔