ایچ آئی وی پازیٹیو روسی نوجوان علاج کیوں نہیں کرواتے؟
22 جنوری 2023اٹھارہ سالہ مرینا نیکیتینا نے ڈی ڈبلیو بتایا، ''جب ہم تینوں کی عمر سات اور آٹھ سال کے درمیان تھی، تو ہمیں گود لینے والی ماں نے ہم سے مخاطب ہوتے کہا کہ انھیں ہمیں دو راز بتانا ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ہمیں گود لے لیا گیا تھا اور دوسری بات اس وقت بتائی جائے گی جب ہم بڑے ہو جائیں گے۔‘‘
مرینا نے کہا کہ جب وہ بالغ ہوئیں تو انہیں پتہ چلا کہ وہ تو ایچ آئی وی پازیٹیو ہیں۔ انہوں نے کہا پھر انہیں سمجھ آئی کہ بچپن میں انہیں روزانہ تین مرتبہ کڑوا شربت پینے کو کیوں دیا جاتا تھا اور چار یا پانچ گولیاں کیوں کھاتی تھیں۔یہ دراصل اس بیماری کا علاج تھا، جو انہیں پیدائشی طور پر ہی لاحق تھی۔
مرینا کا تعلق مشرقی شہر کازان سے ہے۔ وہ پندرہ تا بیس سالہ ایسے دس ہزار روسی نوجوانوں میں سے ایک ہیں، جو اپنی ماں کی کوکھ میں ہی ایچ آئی وی پازیٹیو کا شکار ہو گئے تھے۔پیدائش کے بعد مرینا کی ماں انہیں ہسپتال ہی چھوڑ گئی تھیں۔مرینا نے اپنی ابتدائی زندگی کے چار برس ہسپتال میں ہی گزارے، جہاں ان کا علاج کیا جاتا رہا۔
ایچ آئی وی کی مفت تھیراپی
روس میں اب ایچ آئی وی سے متاثرہ زیادہ تر افراد بالغ ہی ہیں روس میں اس بیماری میں پیدائشی طور پر مبتلا ہونے کے کیسوں میں بھی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس کی وجہ حاملہ خواتین کو انفیکشن کنٹرول کرنے کی خاطر مفت تھیراپی قرار دیا جا رہا ہے۔
روسی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار اکیس میں تیرہ ہزار دو سو تین بچوں کو جنم دینے والی مائیں ایچ آئی کا شکار تھیں لیکن صرف ایک سو چھیاسی بچوں میں یہ بیماری منتقل ہوئی۔ اسے ایک انتہائی مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
روس بھر میں ایسے متعدد ایڈز سینٹرز ہیں، جہاں ایچ آئی وی پازیٹیو افراد کو طبی مدد اور مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔تاہم ایسے سینٹرز میں بالخصوص ٹین ایجرز کو نفسیاتی مدد فراہم کرنے کا کوئی منظم پروگرام نہیں بنایا گیا ہے۔
ایک اور ایچ آئی وی پازیٹیو شخص کا ’کامیاب علاج‘
مرینا بتاتی ہیں کہ اپنی بیماری کی وجہ سے انہیں بچپن میں کس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں کھیلتا تھا جبکہ ان کے کھانے پینے کے برتن بھی الگ تھے۔
ان باتوں نے ان کو ایک ذہنی صدمہ بھی دیا۔تاہم پھر ایک خاتون نے انہیں گود لے لیا۔یوں ان کی زندگی اچانک خوشگوار ہو گئی۔ لیکن یہ دور بھی زیادہ طویل ثابت نہ ہوا۔
مرینا اب سترہ برس کی ہیں۔انہوں نے اپنی انفیکشن کو کنٹرول میں رکھنے کی خاطر دوائی لینا چھوڑ دی تھی۔انہوں نے کہا، ''اسکول اور گھر میں مجھے شدید مسائل کا سامنا ہے۔میرے والد اور بھائی شراب نوش بن چکے ہیں۔ مجھے کڑے وقت کا سامنا ہے اور میں دوائی لینا بھول جاتی ہوں۔میری نفسیاتی حالت ٹھیک نہیں۔‘‘
مرینا نے البتہ اب دوبارہ تھیراپی لینا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں دوائی نہ کھانے کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت بری طرح متاثر ہوئی اور وہ انتہائی کمزور دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ کوشش کر رہی ہیں کہ اپنے جسم کو مضبوط بنائیں تاکہ ذہنی مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
دو سال قبل مرینا کو ایک اور خاتون سے پیار ہو گیا تھا۔ مرینا نے اسے پہلے دن ہی بتا دیا تھا کہ وہ بیمار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹنر کے لیے ان کا ایچ آئی وی ہونا کوئی ایشو نہیں تھا۔
نفسیاتی دباؤ اور الجھنیں
ایج آئی وی پازیٹیو ٹین ایجرز میں جب جسمانی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں تو ان میں ہونے والی ہارمون کی تبدیلیاں ایک صحت مند فرد کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایڈز اور ایچ آئی وی پروگرام سے وابستہ ڈاکٹر ایلینا کیروشینا کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی پازیٹیو میں ہارمون کی تبدیلیاں زیادہ ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہیں۔
ڈاکٹر ایلینا نے بتایا، ''جب ٹین ایجرز احتجاجی طور پر دوائی لینا ترک کر دیتے ہیں تو صورتحال زیادہ ابتر ہو جاتی ہے۔‘‘یہ دوائی ہر روز ایک مخصوص وقت پر لینا ہوتی ہے۔ بڑے سائز کی یہ گولیاں بد ذائقہ بھی ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر ایلینا کا اصرار ہے کہ بالخصوص ٹین ایجرز کو یہ دوائی انجیکشن کے ذریعے دی جانا چاہیے کیونکہ یوں اس کی تاثیر زیادہ دیر تک رہے گی۔ کئی ممالک میں ایچ آئی وی پازیٹیو افراد کو انجیکشن کے ذریعے ہی دوائی دی جاتی ہے۔
ٹین ایجرز کو تنہائی کا خوف
ایچ آئی وی پازیٹیو ٹین ایجرز اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ بھی ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ویسے ہی نظر آنا چاہتے ہیں، جیسا صحت مند افراد دکھائی دیتے ہیں۔کازان میں پریکٹس کرنے والی ماہر نفسیات سولتانہ ازمبیاوا کا کہنا ہے کہ کچھ بیمار ٹین ایجرز تو اداس ہی رہتے ہیں اور ڈپریشن انہیں خودکشی پر بھی مجبور کر سکتی ہے۔
سولتانہ کا کہنا ہے کہ فیملی کے مسائل ایسے ٹین ایجرز کی مشکلات بڑھا دیتے ہیں۔اس صورتحال میں وہ دوائی کھانا اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ خودکشی کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک انیس سالہ لڑکی عشق میں گرفتار ہو گئی لیکن اس نے اپنے پارٹنر کو نہ بتایا کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹیو ہے۔
ایڈز کا عالمی دن، اموات کی شرح اپنی نچلی ترین سطح پر
ہر تیسرے منٹ میں ایک نو عمر لڑکی ایچ آئی وی سے متاثر، یونیسف
سولتانہ کے مطابق اس لڑکی کو خوف تھا کہ اگر اس کے پارٹنر کو اس کی بیماری کا علم ہو گیا تو وہ اسے چھوڑ دے گا۔یوں اس نے دوائی لینا بھی چھوڑ دی تاکہ یہ راز افشا نہ ہو۔یوں وہ آخر کار ایڈز کی وجہ سے ہلاک ہو گئی۔
اس لڑکی کی موت کے بعد بھی اس کا پارٹنر اس کی قبر پر جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اس علم ہو جاتا کہ اس کی پارٹنر بیمار ہے تو وہ اسے ہرگز نہ چھوڑتا بلکہ اس کا علاج کراتا۔
ڈاکٹر سولتانہ ازمبیاوا کا کہنا ہے کہ بالخصوص چودہ تا سولہ سال کے بچے دوائی لینا چھوڑ سکتے ہیں ، اس لیے ان کی نگرانی لازمی ہے۔ ان کا یہ اصرار بھی ہے کہ ٹین ایجرز کے ساتھ گفتگو کرنا لازمی ہے اور ان کے خوف کو دور کرنا ضروری۔ اگر مناسب تھیراپی نہ دی جائے تو یہ بچے کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ایرینا شیوٹاوا (ع ب، ع ت)
یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔