ایڈز: پھیلاوٴ کی رفتار کم مگر خطرہ برقرار
24 نومبر 2009ایڈز کے مرض کا مسلسل پھیلاؤ پوری دنیا کے لئے باعث تشویش بنا ہوا ہے۔ جنیوا، شنگھائی اور کئی دیگر شہروں میں اقوام متحدہ کے ایڈز کی روک تھام کے ادارے یو این ایڈز کی طرف سے بیک وقت جاری کردہ ایک رپورٹ میں اس وقت دنیا بھر میں ایڈز کی تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ طبی سہولیات اوراحتیاطی تدابیر کے باعث اس بیماری پر صرف جزوی طور پر قابو پایا جا سکا ہے۔
تقریباً تین عشرے پہلے ایڈز کے نام سے جس مرض کی پہلی مرتبہ تشخیص کی گئی تھی، وہ اب تک تمام براعظموں کے انسانوں کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس مہلک مرض کے ہاتھوں اب تک پوری دنیا میں قریب 25 ملین انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNAIDS نے اس بارے میں جو تازہ ترین اعداد و شمار جاری کئے ہیں، وہ بہت ہوشربا بھی ہیں، اور تشویش ناک بھی۔ اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر شنگھائی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یواین ایڈز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر مِیشل سِیدیبے نے کہا کہ گزشتہ آٹھ برسوں کے مقابلے میں اس مرض کے وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار میں پہلی بار 17 فیصد کم پھیلاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایڈز کا باعث بننے والے HIV وائرس کے پھیلاؤ میں سب سے واضح کمی مشرقی افریقہ میں دیکھنے میں آئی، جہاں اس وائرس کا شکار ہونے والے نئے مریضوں کی تعداد میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ مِیشل سِیدیبے کے بقول، پورے براعظم افریقہ میں اس وائرس کے پھیلاؤ میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
یو این ایڈز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی کہ پچھلے پانچ سالوں میں ایڈز یا اس کے وائرس سے متاثرہ افراد کے لئے علاج معالجےکی سہولیات میں دس گنا اضافہ ہوا ہے، اور اسی بنا پر ایڈز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھی اٹھارہ فیصد کمی ہوئی ہے۔ ایسا 2001 کے بعد سے اب تک پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس حوصلہ افزا پیش رفت کے باوجود، یہ حقیقت اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ آج بھی ہر روز دنیا بھر میں کم ازکم 7400 صحت مند افراد HIV وائرس کا شکار ہو رہے ہیں، اور اس تعداد کو آئندہ برسوں میں لازمی طور پر مزید کم کرنا ہوگا۔ مِیشل سِیدیبے کے مطابق، اس مقصد کے حصول کے لئے احتیاطی تدابیر کے بین الاقوامی نیٹ ورک کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
2008 میں دنیا بھر میں چار لاکھ تیس ہزار بچے ایسے پیدا ہوئے جو پیدائشی طور پر HIV وائرس کا شکار تھے۔ ایشیا اور افریقہ کے کئی ملکوں میں 45 فیصد حاملہ خواتین ایسی تھیں، جو جب علاج کے لئے مختلف ہسپتالوں میں لائی گئیں، تو اُن کے بچے اپنی پیدائش سے پہلے ہی ایڈز کے وائرس کا شکار ہو چکے تھے۔ 2007 میں اِن ملکوں میں ایسی حاملہ خواتین کی یہی شرح 35 فیصد تھی۔
گزشتہ سال کے آخر تک زیادہ تر غریب ملکوں میں رہنے والے لاکھوں انسان اس موذی مرض کے مہنگے علاج کے متحمل نہ ہو سکے۔ 2008 میں پوری دنیا میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 4.7 ملین تھی۔
یواین ایڈز کے اندازوں کے مطابق، 2010 تک HIV وائرس سے بچاؤ کی بین الاقوامی کوششوں کے لئے اضافی طور پر مزید قریب پچیس بلین ڈالر درکار ہوں گے۔
رپورٹ: عصمت جبین
ادارت: مقبول ملک