شمالی یونان میں واقع ایڈومینی کا مہاجر کیمپ مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا ہے۔ دوسری طرف بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں مزید تیس مہاجرین کے ہلاک ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یونانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ چھبیس مئی بروز جمعرات ایڈومینی کا مہاجر کیمپ خالی کرا لیا گیا۔ یورپ کو درپیش مہاجرین کے بدترین بحران میں یہ کیمپ مہاجرین اور تارکین وطن کی ابتر صورتحال کی علامت بن چکا تھا۔
یونانی پولیس کے مطابق گزشتہ تین دنوں سے جاری آپریشن کے آخری روز یعنی جمعرات کو چار ہزار مہاجرین کو ایڈومینی کے کیمپ سے نکال کر یونان کے صنعتی شہر سالونیکی کے نواح میں قائم کیے گئے ایک نئے کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔
ایڈومینی میں پولیس ذارئع نے اے ایف پی کو بتایا، ’’انخلاء کا ہمارا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اب یہاں کوئی مہاجر نہیں بچا ہے۔ امدادی اداروں کی طرف سے نصب کردہ کچھ خیمے اور دیگر اشیاء ہی یہاں رہ گئی ہیں۔‘‘
ایڈومینی کا مہاجر کیمپ مہاجرین کی ابتر صورتحال کی علامت بن چکا تھا۔ بلقان کی ریاستوں کی طرف سے اپنی سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دینے کے بعد ایڈومینی میں مہاجرین کی تعداد انتہائی زیادہ ہو گئی تھی، جو شمالی اور وسطی یورپ کی طرف جانے کے خواہش مند تھے۔
دس ہزار سے زائد مہاجرین والے ایڈومینی کے کیمپ میں نہ تو تمام مہاجرین کے لیے رہائش کا مناسب انتظام تھا اور نہ ہی انہیں امدادی اشیاء کی فراہمی ممکن ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی وہاں ابتر حالات کی وجہ سے طبی مسائل کا بھی خطرہ پیدا ہو چکا تھا۔
یونانی حکومت گزشتہ کئی مہینوں سے اس کوشش میں تھی کہ ایڈومینی میں عارضی پڑاؤ ڈالے ہوئے مہاجرین کو دیگر لیکن بہتر انداز میں بنائے گئے مہاجر کیمپوں میں منتقل کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے حکام نے ان مہاجرین کو وہاں سے نکل جانے کی ہدایات بھی جاری کر رکھی تھیں۔
مہاجر کيمپ ميں زندگی کيسی ہوتی ہے؟
ان دنوں شورش زدہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مہاجرين مختلف يورپی رياستوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ دنيا کے مختلف حصوں ميں مہاجر کيمپوں ميں زندگی کيسی ہوتی ہے، اس پر ڈی ڈبليو کی خصوصی پکچر گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP/R, Adayleh
اميد کے منتظر
ايک شامی پناہ گزين ترکی کے ايک مہاجر کيمپ ميں پيدل چلتے ہوئے۔ شامی خانہ جنگی کے سبب قريب 2.7 ملين شامی پناہ گزين ترکی ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ متعدد مرتبہ انقرہ حکومت کی يقين دہائيوں کے باوجود شامی شہريوں کو ايک عرصے تک ترکی ميں ملازمت کی اجازت نہ ملی، جس سبب ملازمت کے اہل مردوں ميں نا اميدی بڑھ رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Court
انسانی معيارات پر پورا اترنے والا پہلا فرانسيسی مہاجر کيمپ
تارکين وطن شمالی فرانس کے شہر ڈنکرک کے پاس گراندے سانتھ کے مقام پر تعمير کردہ نئے مہاجر کيمپوں ميں منتقل ہوتے ہوئے۔ ’انسانی معيارات پر پورا اترنے والے‘ پہلے فرانسيسی مہاجر کيمپوں ميں تارکين وطن کی منتقلی کا کام مارچ کے آغاز ميں شروع ہوا۔ امدادی تنظيم ’ڈاکٹر ود آؤٹ بارڈرز‘ (MSF) کی جانب اب تک ايسے دو سو کيبن تعمير کيے جا چکے ہيں، جبکہ منصوبہ 375 کيبنز کی تعمير کا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
اميد کا چہرہ
عراق سے تعلق رکھنے والی ايک تين سالہ کُرد بچی، لکڑی سے بنے کيبن ميں مسرت اور اميد بھری نگاہوں سے ديکھتی ہوئی۔ گراندے سانتھ ميں تعمير کردہ ان نئے کيبنز ميں رہنے والے زيادہ تر مہاجرين قبل ازيں گراندے سانتھ اور کيلے کے مقامات پر انتہائی خراب حالات ميں وقت گزار چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
نہ آگے جانے کا راستہ، نہ واپسی کی کوئی راہ
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر اڈومينی شہر ميں ہزاروں پناہ گزين انتہائی ناقص حالات ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ چند بلقان ممالک کے حاليہ اقدامات کے سبب وہاں ہزاروں تارکين وطن پھنس گئے ہيں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چند لمحوں کی مسکراہٹيں
اڈومينی کے مقام پر بچے ايک کرتب دکھانے والے کی حرکتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔ طبی ماہرين بارہا يہ تنبيہ کررہے ہيں کہ اس کيمپ ميں بچوں کے ليے حالات انتہائی ناساز ہيں اور سردی اور نمی کے باعث بچوں ميں بہت سے بيمارياں پيدا ہو رہی ہيں۔
تصویر: Getty Images/D. Kitwood
ايک گمنام زندگی گزارتے ہوئے
شمال مشرقی سوڈان ميں اريٹريا کے پناہ گزين واد شريفے کے مہاجر کيمپ ميں زير علاج۔
تصویر: Reuters/M. N. Abdallah
مضبوط بنيادوں کا قيام
الجزائر کی بلديات تندوف ميں واقع ايک مہاجر کيمپ ميں سہاواری قبيلے سے تعلق رکھنے والی ايک استانی بچوں کو پڑھاتے ہوئے۔ اس مقام پر کُل پانچ مہاجر کيمپ موجود ہيں، جن ميں ايک لاکھ پينسٹھ ہزار مہاجرين اپنے شب و روز گزارتے ہيں۔ وہاں ايک ديوار پر پيغام لکھا ہے، ’’اگر آپ کا آج دشوار ہے، تو مستقبل روشن ہو گا۔‘‘
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
افغان مہاجرين پاکستان ميں : ايک ناگزير بوجھ
پاکستان ميں بسنے والے تقريباً 1.7 ملين رجسٹرڈ افغان مہاجرين ميں سے کچھ کے بچے ايک اسکول ميں تعليم حاصل کرتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کا مسلسل يہ مطالبہ ہے کہ سالہا سال سے پاکستان ميں مقيم افغان تارکين وطن کے حوالے سے کوئی حتمی فيصلہ کيا جائے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
ہر حالت ميں خوش
يک شامی مہاجر بچہ اردن کے زاتاری مہاجر کيمپ ميں ايک گاڑی کے ٹائر کے ساتھ کھيلتا ہوا۔ يہ کيمپ سن 2012 ميں کھولا گيا تھا تاکہ شامی خانہ جنگی سے فرار ہونے والے يہاں آکر پناہ لے سکيں۔ اس وقت اس کيمپ ميں قريب ايک لاکھ افراد مقيم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/R, Adayleh
9 تصاویر1 | 9
تاہم ایڈومینی میں موجود ان مہاجرین کو امید تھی کہ ایک دن بلقان کی ریاستیں اپنی سرحدی گزر گاہوں کو دوبارہ کھول دیں گی اور وہ یورپ کے دیگر ممالک کی طرف اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ لیکن گزشتہ کچھ ہفتوں سے ان کی یہ امید بھی ٹوٹ گئی تھی۔
ایڈومینی کے اس مہاجر کیمپ سے مہاجرین کا انخلاء ایک ایسے دن ممکن ہوا، جب لیبیا سے یورپ کے لیے روانہ ہونے والی ایک کشتی ڈوب گئی۔ حکام نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کم ازکم تیس مہاجرین اس حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ یورپی یونین کے بحری دستوں کے مطابق 77 افراد کو بچا لیا گیا۔
حکام نے بتایا ہے کہ سمندری علاقے کی فضا سے نگرانی پر مامور لکسمبرگ کے ایک ہوائی جہاز نے اس کشتی کو پیش آنے والے حادثے کے بارے میں اطلاع دی تھی، جس کے بعد یورپی یونین کی بحریہ نے فوری طور پر کارروائی شروع کر دی۔ اطالوی بحریہ نے بدھ کے دن بھی بحیرہ روم میں پانچ سو باسٹھ مہاجرین کو بچا لیا تھا۔ مجموعی طور پر اس ہفتے کے دوران بحیرہ روم کے ذریعے شمالی افریقہ سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے چھ ہزار افراد کو بچایا جا چکا ہے۔