1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتپاکستان

ایکو ٹورزم: پاکستان میں سیاحت کے شعبے کے تحفظ کی امید

13 اگست 2023

ماحول دوست سیاحت یا ایکو ٹورزم کی اصطلاح دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہے، اس کا مطلب سیاحتی سر گرمیوں کے فروغ کے ساتھ دلفریب مقامات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

Pakistan | Ökotourismus
سوات میں واقع مشہور جھیل سیف الملوک کے قریب لالہ زار کا علاقہ تصویر: Sofia Kashif

 پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث سیاحتی سر گرمیاں ماند پڑ گئیں تھیں، جنہیں ایکو ٹورزم اور کیمپ ولیجز منصوبوں کے ذریعے بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان میں سیاحت کا شعبہ شدید متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سوات، کالام، ناران، چترال، دیر اور دیگر علاقے کسی وقت دنیا بھر سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ جن میں اکثریت ہمالیہ کی  بلند و بالا چوٹیاں سر کرنے کی شوقین ہو تی تھی۔

کورونا وائرس وبا اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے پچھلے چند سالوں میں یہاں سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس گراوٹ سے سب سے زیادہ مقامی افراد متاثر ہوئے جن کا روزگار سیاحت سے وابستہ ہے۔ 

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے

مگر 2023 میں شمالی علاقہ جات میں ایک مرتبہ پھر سیاحتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے تین ماہ میں تقریباﹰ سات لاکھ سیاحوں نے ان علاقوں  کا رخ کیا ہے، جن میں بیرون ملک سے آنے والے افراد کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شامل ہے۔ 

سیاحتی سرگرمیوں میں تیزی کی ایک بڑی وجہ یو این ڈ ی پی کے تعاون سے خیبر پختونخواہ میں دس مقامات پر ''ٹورزم کیمپ ولیجز‘‘کا قیام ہے۔ جدید سہولیات سے آراستہ یہ کیمپنگ پوڈز پاکستان میں ایکو ٹورزم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ 

ایکو ٹورزم کیا ہے؟

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز ایگری کلچر یونیورسٹی پشاور سے وابستہ محقق محمد اسرار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایکو ٹورزم کی اصطلاح دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہے، جس کا مطلب سیاحتی سر گرمیوں کے فروغ کے ساتھ دلفریب  مقامات کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔  

وہ کہتے ہیں کہ انسانی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں سے قدرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہذا دنیا بھر میں حکومتیں ایسے سیاحتی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں جن سے ایکو سسٹم  کی حفاظت میں بھی مدد مل ر ہی ہے۔ 

محمد اسرار کےمطابق پاکستان میں حکومتی سطح پر سیاحت کے شعبے میں اصلاحات اور درست پالیسیوں کا فقدان ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں نجی شعبے کی معا ونت سے  کینیا ، بھارت اور پیرو کی طرز کے سیاحتی ماڈل بنانے کی ضرورت ہے جوان ممالک کی معیشت کی بہتری میں اہم کر دار ادا کرنے کے  ساتھ مقامی افراد  کو ذاتی کاروبار سیٹ کرنے میں مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔ 

ایکو ٹورزم کی اصلاح ماحول دوست سیاحت کے لیے استعمال کی جاتی ہےتصویر: Sofia Kashif

 کیمپ ولیجز کا قیام 

خیبر پختونخواہ  کی صوبائی حکومت نے یونائیٹڈ نیشن ڈیویلپمنٹ فنڈز( یواین ڈی پی) کے تعاون سے سن 2017 میں صوبے کے دس دلفریب مقامات پر ٹورسٹ کیمپ ولیجز کے قیام کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔  یو این ڈی پی کے ایک ترجمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یورپیئن طرز کے ٹورسٹ پوڈز کا قیام پاکستان میں ایک نیا  آئیڈیا تھا، جس سے یہاں ماند پڑتی سیاحتی سرگرمیاں بحال ہوئی ہیں۔  

یو این ڈ ی پی کے مطابق تین سو ملین روپےکے سرمائے سے شروع  کیے جانے والے اس منصوبے کا  ایک اور مقصد مقامی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی تھا، جس میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ اب تک سوات، چترال، بونر، بٹگرام ، اپر اور لوئر دیر میں دس مقامات پر ٹورسٹ ولیجز قائم کئے گئے ہیں۔ ہر کیمپ میں دس ٹورسٹ پوڈ ز بنائے گئے ہیں جو اٹیجڈ واش روم، کچن اور دیگر جدید سہولیات سے آراستہ ہیں۔ 

ان کیمپ ولیجز کے قیام کے بعد دنیا بھر سے نجی شعبے نے بھی ان علاقوں میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا ہے۔ متعدد این جی اوز سیاحوں کو  کھانے، سفر اور قیام کی دیگر بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے مقامی افراد کے کاروبار میں بھی مالی معاونت کر رہی ہیں جس سے صوبے کی معیشت پر مثبت ا ثرات مرتب ہوئے ہیں۔

نیلم ویلی میں ٹینٹ ویلج تصویر: Khwaja Ishtiaq

سیاح کیا کہتے ہیں؟

خواجہ اشتیاق احمد سفر کے شوقین ہیں اورپاکستان کے شمالی علاقہ جات کا چپہ چپہ چھان چکے ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ چند دن پہلے ہی وادی نیلم  میں پتلیاں جھیل کے قریب قائم بیس کیمپ میں قیام کر کے لوٹے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں ٹینٹ ولیج  سیاحوں کو بہترین سروسز فراہم کر رہا ہے جن میں ہر طرح کی ورائٹی کے خوش ذائقہ  پاکستانی کھانوں نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا۔ 

خواجہ اشتیاق کے مطابق لوات ہالہ سے پتلیاں جھیل تک سڑک کو جدید مشینری کے ذریعے  ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے حالیہ سیزن میں مکمل بحال کر دیا گیا ہے۔ اشتیاق مزید بتاتے ہیں کہ بہتر سہولیات سے یہاں سیاحتی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پختہ روڈ اور بجلی کی دستیابی  سے مقامی افراد کی حالت بھی پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔ 

صوفیہ کاشف معروف سفر نامہ نگار اور بلاگر ہیں۔ وہ کئی سال ابو ظہبی اور دبئی میں گزار کر وطن لوٹی ہیں۔ صوفیہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سوات، ناران اور کاغان اپنی خوبصورتی اور موسم کی وجہ سے کسی دوسری دنیا کا نظارہ معلوم ہوتے ہیں۔مگر جتنی یہاں خوبصورتی ہے اتنے ہی یہ علاقے اور مقامی افراد بے توجہی کا شکار ہیں۔ سوات میں لالہ زار اور سیف الملوک جھیل کے راستے تباہ حال ہیں، جنہیں محفوظ اور ہموار کرنے کی ضرورت  ہے۔ 

پاکستان کے شمالی علاقہ جات دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سمیت دیگر بہت سی برف پوش چوٹیوں کا گھر ہیںتصویر: Joe Stenson/AFP/Getty Images

صوفیہ مزید کہتی ہیں کہ جدید طرز کے ہوٹلوں اور کیمپ ولیجز  کی وجہ سے باہر کا سرمایہ دار تو ان علاقوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے مگر مقامی لوگوں کے پاس بجلی تک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی غیر ذمہ دارانہ سیاحتی سرگرمیوں کے باعث ان علاقوں میں زمینی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی روک تھام کے لیے اقدامات اور سیاحوں میں ایکو ٹورزم کے حوالے سے آگاہی پھیلانا انتہائی ضروری ہے۔ 

ایکو ٹورزم  سے متعلق آگاہی 

 یو این ڈی پی کے ترجمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں کیمپ ولیجز کے قیام کا منصوبہ توقع سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے اور ا ب تک اس کے تین فیز  مکمل کئے جا چکے ہیں۔ اس سے ان علاقوں میں ما حول، ایکو سسٹم، مقامی کلچر اور علاقے کی قدیم تاریخ کے تحفظ میں بھی مدد مل رہی ہے۔ 

ان علاقوں میں تعلیم کی کمی کی باعث ایکو ٹورزم کے حوالے سے شعور و آگاہی کی کمی ہے۔   ان کے مطابق اس مقصد کے لئے یہاں نوجوانوں کے ٹریننگ سیشنز منعقد کئے جا رہے ہیں جن میں انہیں ایکو ٹورزم سے متعلقہ کاروبار کے قیام اور سیاحوں کو بہتر ایکو فرینڈلی سروسز فراہم کر نے کی تر بیت دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں مقامی افراد میں تحفظ ماحول سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لئے بھی سیشنز  کا آغاز کیا گیا ہے۔ 

خیبر پختونخوا میں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کوششیں

04:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں