وسطی صومالیہ میں ایک دس سالہ بچی جنسی اعضاء کی قطع و برید کے دوران ہلاک ہو گئی ہے۔ بچی کی ہلاکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس رواج کو مجرمانہ قرار دینے کا مطالبہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا ہے۔
اشتہار
صومالیہ کم عمر بچیوں کے نازک اعضاء کے آپریشن کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ یہ رسم زیادہ تر بر اعظم افریقہ کے کئی ایک ممالک میں رائج ہے۔
ہلاک ہونے والی بچی کو اس کی والدہ اس ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک روایتی ختنہ کرنے والی دائی کے پاس لے گئی تھی۔ تاہم ختنے کے بعد بچی کا خون بہنا بند نہیں ہوا اور دو روز ہسپتال میں رہنے کے بعد یہ بچی موت کی بانہوں میں چلی گئی۔
ایک مقامی رائٹس گروپ ’گال کایو ایجوکیشن سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلیپمنٹ‘ کی ڈائریکٹر حوا عدن محمد نے تھوماس روئٹرز فورم کو بتایا،’’بظاہر یہی لگتا ہے کہ آپریشن کے دوران ختنہ کرنے والی خاتون سے بچی کی کوئی اہم رگ کٹ گئی ہے۔ ابھی تک اس عورت کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے لیکن اگر کیا بھی جائے تو ایسا کوئی قانون نہیں جو اسے سزا دلا سکے۔‘‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں دو سو ملین بچیاں نسوانی ختنے کے عمل سے گزر چکی ہیں۔ اس طرح ان بچیوں کو سنجیدہ نوعیت کے صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
بچیوں کے نازک جسمانی اعضاء کو کاٹنے کے لیے آپریشن کے نام پر جو کارروائی کی جاتی ہے وہ کوئی ماہر ڈاکٹر یا کوئی سرجن نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے کسی بھی دائی یا دیہی علاقے کی کسی خاتون جراح کی خدمات لی جاتی ہیں۔
یہ قدیمی رواج کم سے کم ستائیس افریقی ممالک اور ایشیا و مشرق وسطی کے بھی کچھ حصوں میں رائج ہے جس میں روایتی بلیڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ بلیڈز یا چاقو عموماﹰ طبی معیارات کے مطابق جراثیموں سے پاک بھی نہیں کیے جاتے۔
اقوام متحدہ نے اس عمل کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر موجودہ روایات برقرار رہیں تو آئندہ پندرہ برسوں کے دوران نسوانی ختنوں کا شکار بننے والی خواتین کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گی۔
ص ح / ا ا / تھومس روئٹرز فورم
جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں ایک ’وبا‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیش اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
شادی کی کم از کم عمر میں کمی کی تجویز
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو ایک ’وبا‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے زور دیا ہے۔ اس دوران اس تنظیم نے ڈھاکہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے
بنگلہ دیش میں تقریباً تیس فیصد لڑکیوں کو ان کی پندرہویں سالگرہ سے پہلے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔’’ اس سے پہلے کے سیلاب گھر کو بہا لے جائے شادی کر دی جائے‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی یہ رپورٹ ان میں سے چند لڑکیوں سے بات چیت کر کے مرتب کی ہے، جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں قانونی طور پر ایسی شادیاں غیر قانونی ہیں تاہم رشوت دے کر پیدائش کی دستاویز کو باآسانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
غربت مجبوری کا نام
بنگلہ دیش میں تواتر سے آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت سے شہری غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ غربت بھی چائلڈ میرج کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
جنسی اور جسمانی تشدد
کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/M. Asad
یہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
یہ مسئلہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم عمری میں زبردستی شادیاں کرانے کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلی دہائی کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 140 ملین لڑکیوں کی اٹھارہ سال سے کم میں شادی کر دی جائے گی اور ان میں سے 40 فیصد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوں گی۔
تصویر: DW/P.M.Tewari
روایات بمقابلہ قانون
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال میں کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2000ء اور 2010ء کے دوران 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی تقریباً پچیس ملیین لڑکیاں ایسی تھیں، جن کی شادی اس وقت کر دی گئی تھی، جب وہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Hatvalne
رویے میں تبدیلی
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے نائب ڈائریکٹر اسٹیفن ایڈکسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سلسلے میں لازمی طور پر مختلف سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران اموات اور صنفی تعصب کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔