ایک اور بیٹی کو ’مرد کی انا‘ کی بھینٹ چڑھا ديا گيا
بینش جاوید
30 جنوری 2018
پاکستانی سپریم کورٹ نے صوبہ خیبر پختونخوا میں میڈیکل کالج کے تیسرے سال کی طالبہ کو شادی سے انکار کر دینے کے سبب قتل کر دیے جانے کا منگل کے روز از خود نوٹس لیا۔
اشتہار
پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق اس لڑکی کو ایک شخص نے شادی سے انکار کر دینے کے باعث جان سے مار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس لڑکی کی وہ ویڈیو وائرل ہو گئی ہے جس میں گولیاں لگنے کے بعد وہ اپنے قاتل کا نام لے رہی ہے۔ یہ لڑکی شدید زخموں کے باعث بچ نہ سکی۔ پاکستانی انگریزی اخبار ڈان کے مطابق اس کیس کے بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نصار کا کہنا تھا، ’’ ہم نے سنا ہے کہ خیبر پختونخوا کی پولیس میں بہتری آئی ہے، یہ پولیس اس لڑکی کے قتل کے بعد کیا کر رہی ہے ؟‘‘
رپورٹس کے مطابق دو بھائیوں نے عاصمہ نامی لڑکی پر فائرنگ کر کے اسے ہلاک کر دیا جو کالج کی چھٹیوں میں اپنے اہل خانہ سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ لڑکی نے ہلاک ہونے سے پہلے ایک ویڈیو میں اپنے قاتل کا نام ریکارڈ کرا دیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس لڑکی کو قتل کرنے والا ایک بھائی، جو کہ مرکزی ملزم ہے، ملک سے فرار ہو گیا ہے۔
پاکستان میں مختلف سماجی حلقوں سے طرف سے اس نوجوان طالبہ کے قتل پر شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ لاہور میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن اور تھیٹر آرٹسٹ نعیمہ بٹ نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بد قسمتی سے پاکستان میں بہت سے مرد، عورت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، چاہے ان کی اس سے شادی ہوئی ہو یا نہیں۔ وہ انہیں کمزور سمجھتے ہیں اور ان کی جانب سے انکار مردوں کی انا کو تکلیف پہنچاتا ہے۔‘‘ بٹ نے مزید کہا کہ ہمیں مردوں کو عورتوں کی آراء کی عزت کرنا سکھانا ہوگی اور ساتھ ہی عورتوں کو بھی اپنا تحفظ کرنا سيکھنا ہوگا۔
صبا نام کی دو لڑکیاں لیکن تقدیریں کتنی مختلف
03:15
پاکستانی صحافی ماریہ میمن نے عاصمہ کے لیے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ’’ایک خوبصورت لڑکی جس نے بہت اونچے خواب دیکھے تھے۔ اس سے اس کی زندگی انتہائی ظلم اور بربریت سے چھین لی گئی صرف اس لیے کیوں کہ ایک مرد کی انا مجروح ہوئی تھی۔‘‘
ٹوئٹر کی ایک صارف نے خیبر پختونخوا کی پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا، ’’ساڑھے چار سال میں عمران خان نے ماڈل پولیس بنا لی ہے لیکن یہ پولیس نہ شریفہ بی بی ، نہ مشال خان اور نہ ہی عاصمہ کے قاتلوں کو پکڑ سکی۔‘‘
ٹوئٹر ہی کی ایک اور صارف، ماریہ نے لکھا،’’ ایک عورت کو صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کیوں کہ اس نے شادی کی پیشکش قبول نہیں کی۔ کیا مردوں کی انا اتنی کمزور ہے کہ عورتیں اس پریشانی کے ساتھ سانس بھی نہیں لے سکتیں کہ کہیں ان کی کوئی بات ان کی مردانگی کو ٹھیس نہ پہنچا دے۔‘‘
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
14 تصاویر1 | 14
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ کئی عورتوں پر رشتے سے انکار کر دینے کی سزا کے طور پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے یا انہیں قتل کر کے ان کا وجود ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ سماجی ماہرین کی رائے میں پاکستان میں نہ صرف قانون پر عملدرآمد بلکہ عورتوں کے حوالے سے مردوں کی سوچ اور ان کے رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔