’’ ایک اور دکھی ماں، ایک اور بیوہ، ایک مرتبہ پھر بچے یتیم‘‘
بینش جاوید
11 جولائی 2018
پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی ریلی پر ہونے والے خودکش حملے کی کئی حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔ اس حملے میں ہارون بلور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا خاندان پہلے بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔
اشتہار
پشاور میں منگل کو رات گئے کیے گئے اس بم حملے میں اے این پی کے رہنما اور انتخابی امیدوار ہارون بلور بھی مارے گئے۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں ساٹھ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں سے پینتیس ابھی تک پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
پاکستان کی سیاسی شخصیات ، آرمی چیف اور دیگرافراد کی جانب سے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
وکیل اور تجزیہ کار بابر ستار نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ ہم ایک محدود نطر رکھنے والی ریاست ہیں، جو ناکام پالیسیوں پر کار بند ہے، جو مختلف آراء کے حوالے سے برداشت کی ترویج نہیں کرتی۔ لیکن کوئی بھی ان غلطیوں کی نشان دہی کرے تو اسے غدار کہا جاتا ہے، تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن۔‘‘
صحافی طحہٰ صدیقی نے لکھا،’’میں نے 2013 میں بھی ہارون بلور کو انتخابی مہم چلاتے دیکھا، جب کچھ روز قبل ہی ان کے والد کو بھی دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ اس وقت پشاور کی گلیوں میں لوگوں سے مل رہے تھے۔ آج وہ یہی کرتے مارے گئے۔‘‘
محمد تقی نے لکھا،’’ اگر کسی شہر کو نشان حیدر دیا جاسکتا تو وہ پشاور کو ملتا، پشاور نے بہت قربانیاں دی ہیں۔‘‘
عبدالمجید خان مروت نے لکھا،’’ ایک اور دکھی ماں، ایک اور بیوہ، ایک مرتبہ پھر بچے یتیم۔ یہاں رات کے بعد اجالے کی کوئی امید نہیں۔‘‘
صحافی مہرین زہرہ ملک نے لکھا،’’ ایک خاندان کی اتنی قربانیاں۔ بشیر بلور کو 2012 میں ایک خود کش حملے میں مار دیا گیا، ان کے بھائی غلام بلور کے اکلوتے بیٹے شبیر بلور 1997 میں مارے گئے۔ آج ہارون بلور بھی مارے گئے۔‘‘
ٹوئٹر کے ایک اور صارف عمران خان نے لکھا،’’ہماری موت کو قربانی مت کہو، ہم مظلوم ہیں، ہم پر یلغار ہو رہی ہے۔‘‘
صحافی احمد نورانی نے لکھا،’’جب پوری پختون قوم زخموں سے چور چور تھی تو ایسے میں راؤ انوار کو رہا کرنا اور پھر ہارون بلور کا شہید ہونا ناقابل فراموش واقعات ہیں، جو آئندہ کے پاکستان کی سمت متعین کریں گے۔‘‘
صحافی اویس توحید نے لکھا،’’ باچا خان کے تشدد مخالف فلسفے کو اپنا کر ہارون بلور کے بیٹے دانیال بلور نے پارٹی کے جذباتی کارکنان کو صبر کرنے اور پر امن رہنے کی تلقین کی ہے۔‘‘
یہ حملہ پچیس جولائی کے عام انتخابات سے قبل پاکستان میں اب تک کی جانے والی سب سے بڑی دہشت گردانہ کارروائی ہے، جس کی ذمے داری مقامی طالبان عسکریت پسندوں نے قبول کر لی ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔