ایک باب کا خاتمہ، بنگلہ دیش کا آخری آرمینیائی بھی چل بسا
9 مئی 2020
بنگلہ دیش کا آخری آرمینیائی مسیحی مائیکل جوزف مارٹن 89 برس کی عمر میں انتقال کر گیا ہے۔ یوں اس جنوب ایشیائی ملک میں آرمینیائی مسیحی کمیونٹی کی تین سو سالہ تاریخ بھی ایک تاریخ بن گئی ہے۔
اشتہار
ایک وقت تھا، جب ڈھاکا میں طاقتور مسیحی کمیونٹی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں تھی۔ اس کمیونٹی میں آرمینیائی مسیحیوں کی تعداد نمایاں تھی۔ موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں آرمینیائی 'ہولی ریزورکیشن چرچ‘ کی بنیاد سن 1781 میں رکھی گئی تھی۔ اسے اس شہر میں آرمینیائی کمیونٹی کا دل قرار دیا جاتا تھا۔
مائیکل جوزف مارٹن کئی عشروں تک اس چرچ کے مجاور کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ تاہم ان کے انتقال کے بعد اس چرچ کی نگرانی کرنے والا اب کوئی آرمینیائی نہیں ہو گا کیونکہ بنگلہ دیش میں موجود وہ آخری آرمینیائی باشندے تھے۔ بیرون ملک سے فعال اس چرچ کے وارڈن آرمین ارسلانین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈھاکا میں اس چرچ کے احیا میں مائیکل نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آرمین نے نو مئی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ مائیکل کا انتقال گيارہ اپريل کو ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مائیکل کی ذاتی کوششوں اور قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ ڈھاکا میں آرمینیائی چرچ کی تاریخ آج کے دن تک برقرار رہتی۔
ڈھاکا میں آرمینیائی باشندے سولہویں صدی میں آئے تھے، تب اس شہر میں اس اقلیتی کمیونٹی کے سینکڑوں افراد کئی اہم عہدوں پر فائز بھی ہوئے۔ ان میں کئی تو اہم تاجر بنے، وکلاء کے طور پر کام کرتے رہے اور کئی اہم اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔
مائیکل سن 1942 میں ڈھاکا پہنچے تھے۔ اس سے قبل ان کے والدین بھی کئی عشروں تک اس ریجن میں قیام پذیر رہ چکے تھے۔ مائیکل نے ابتدا میں ایک کامیاب تاجر کی حيثيت سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے ڈھاکا کے 'ہولی ریزورکیشن چرچ‘ کی نگرانی سنبھالی اور اس سے متصل قبرستان کی دیکھ بھال بھی شروع کی۔ اسی قبرستان میں ان کی اہلیہ بھی دفن ہیں، جو سن دو ہزار چھ میں انتقال کر گئی تھيں۔ اس قبرستان میں کم ازکم چار سو قبریں ہیں۔
ڈھاکا میں اقلیتی کمیونٹی کے ساتھ برتاؤ میں اس وقت تبدیلی آنا شروع ہوئی، جب سن 1947 تقسیم ہند کے نتیجے میں برطانوی اس خطے سے واپس گئے۔ سن انیس سو اکہتر میں بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد حالات مزید بدل گئے۔ اسی وجہ سے دیگر یورپی اقلیتی کمیونٹی کی طرح مائیکل کی اولاد بھی ڈھاکا کو خیر باد کہہ گئی تھی۔
مائیکل نے سن 2009 میں اے ایف پی کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں فکر ہے کہ ان کے بعد اس چرچ کا انتظام کون سنبھالے گا، ''جب میں مر جاؤں گا تو کینیڈا میں مقیم میری تین بیٹیوں میں سے کوئی شاید واپس آکر ڈھاکا میں آرمینیائی موجودگی کو برقرار رکھے۔‘‘ تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی مصدقہ خبر موصول نہیں ہو سکی ہے۔ اس چرچ کا موجودہ آرمینیائی وارڈن ہر دو تین ماہ بعد ڈھاکا کے اس چرچ کا دورہ کرتا ہے۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
ترکی کی مسجد اب ایک امدادی مرکز
ترک شہر استنبول کی ایک مسجد کورونا وائرس کی وبا کے دور میں ایک امدادی مرکز میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آئیے اس مسجد کو دیکھیں تصاویر میں۔
تصویر: DW/S. Rahim
دید یمن مسجد بے شمار میں یکتا
استنبول میں یوں تو تین ہزار سے زائد مساجد ہیں، مگر دیدیمن مسجد دیگر مساجد کی طرح عبادت کے لیے بند ہو جانے کے بعد ایک نئے کردار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ امام مسجد نے اسے ایک ’سپر مارکیٹ‘ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں خوارک کا ایک بینک ہے جو وبا سے متاثرہ افراد کی مدد کرتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد کے دروازے کھلے ہیں
اب تین ہفتے سے زائد عرصہ ہونے کو ہے، جب اس مسجد نے امداد کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ یہاں روزانہ ایک ہزار افراد آ کر ضروریات کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ تعداد بارہ سو تک پہنچ جاتی ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد اب خوراک کی ذخیرہ گاہ
مسجد کی مرکزی جائے نماز اب ایک اسٹور میں تبدیل کی جا چکی ہے۔ جب سپلائی یہاں پہنچتی ہے، تو امام اور ان کی رضاکار ٹیم اسے یہاں ذخیرہ کر دیتی ہے اور یہاں سے خوراک مسجد کے دروازے کے قریب شلیف تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سامان کی قلت نہیں
یہاں تمام شلیف طرح طرح کی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کوکنگ آئل ہو کہ پاستا، آٹا ہو کہ دالیں، چینی، ہو چائے ہو یا دیگر ڈیری پروڈکٹس، سب کچھ دستیاب ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
بچوں کی چاکلیٹ کہاں ہے؟
ایسا نہیں یہاں فقط انتہائی ضرورت کی اشیاء رکھی گئی ہیں اور بچوں کا بالکل خیال نہیں۔ یہاں موجود رضا کار امدادی سامان لینے والے لوگوں سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا آپ نے بچوں کے لیے چاکلیٹ لی؟
تصویر: DW/S. Rahim
یہ بھی تو عبادت ہے
33 سالہ عبدالسمیت شاکر دیدیمن مسجد کے امام ہیں۔ استنبول کے شہریار ضلع میں قائم اس مسجد میں یہ میلہ انہی کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنی رضا کار ٹیم کے ساتھ گاڑیوں سے چیزیں اتارنے میں پیش پیش نظرآتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
پرانی روایت
امام شاکر کے مطابق سلطنت ِ عثمانیہ کے دور میں’سنگ خیرات‘ کی روایت سے متاثر ہوکر انہیں مسجد میں امدادی مرکز بنانے کا خیال آیا۔ عثمانیہ دور میں شہر کے مختلف مقامات پر پتھروں سے ستون بنائے جاتے تھے، جہاں امیر افراد غریبوں کے لیے اپنی خیرات رکھ جایا کرتے تھے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد تک خوراک کون پہنچاتا ہے؟
خوراک سے متعلق سامان ترکی اور بیرون ترکی میں موجود ڈونرز کی طرف سے آتا ہے۔ یہ مسجد نقد رقم قبول نہیں کرتی، مگر اشیائے خوراک یہاں عطیہ کی جا سکتی ہیں۔ کئی ڈونرز خود آ کر چیزیں مسجد کے حوالے کرتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
ضرورت مند کون ہے؟
مسجد کے باہر ایک فہرست لگی ہے، جس پر ضرورت مند افراد اپنا نام اور ٹیلی فون نمبر لکھ جاتے ہیں۔ امام مسجد ان تفصیلات کی چھان بین کرتے ہیں اور پھر ان کی ٹیم کی جانب سے متعلقہ افراد کو ایس ایم ایس بھیجا جاتا ہے کہ آئیے سامان لے جائیے۔
تصویر: DW/S. Rahim
مسجد کا اپنا امدادی طریقہ کار
دیدیمن مسجد سے مدد کے حصول کے لیے ایک طریقہ کار مقرر ہے، مگر ایسا نہیں کہ اگر کوئی انتہائی ضرورت مند امداد لینے مسجد پہنچ جائے تو اسے ٹہلا دیا جاتا ہے۔ ایسے ضرورت مند سے مسجد کے رضاکار چند بنیادی سوالات کرتے ہیں اور اسے سامان مہیا کر دیتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
کپڑے اور جوتے بھی دستیاب ہیں
بعض ڈونرز کی جانب سے ضرورت مندوں کے لیے جوتے اور کپڑے تک مہیا کیے گئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہ رمضان میں خیرات کرنے والے کو کہیں زیادہ ثواب ملتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
کورونا وائرس کی وبا
ترکی میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اب تک تین ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وبا کی وجہ سے وہاں مصدقہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار ہزار تک پہنچ چکی ہے تاہم اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
سماجی فاصلے کے قواعد مسجد میں بھی رائج
مسجد کی انتظامیہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رائج سماجی فاصلےکے قواعد پر عمل درآمد کی کوشش کرتی ہے۔ مسجد کے اندر ایک وقت میں فقط دو افراد داخل ہو سکتے ہیں اور انہیں ہر حال میں ماسک پہننا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
کارگو سے امداد
بہت سے ڈونرز کارگو کے ذریعے امدادی پیکیج اس مسجد کو بھیج رہے ہیں۔ اختتام ہفتہ پر چوں کہ کرفیو ہوتا ہے، اس لیے تب تو یہاں خامشی ہوتی ہے، مگر عام دنوں میں مختلف کارگو کمپنیوں کی گاڑیاں مسلسل اس مسجد تک سامان پہنچاتی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
ترکی میں کرفیو
ترکی میں اختتام ہفتہ پر کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔ تاہم اب حکومت نے ماہ رمضان میں کرفیو کو تین روز تک پھیلا دیا ہے۔ اب لوگوں کو جمعے کی نصف شب سے اتوار کی نصف شب تک اپنے گھروں ہی میں رہنا ہوتا ہے۔