1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک ثواب کی آرزو میں ہزاروں آرزوؤں کا خون؟

5 نومبر 2020

ایک دن بچی غائب ہوتی ہے، دوسرے دن شور اٹھتا ہے، تیسرے دن والدین کے ہاتھ میں کاغذات تھما کر کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ کی "نابالغ" بچی نے مذہب تبدیل کر لیا ہے اور وہ اب ایک چالیس سالہ شادی شدہ شخص کی بیوی بن چکی ہے۔

تصویر: Privat

چار سال قبل سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک بل منظور کیا تھا۔ اس بل کے  تحت 18 سال سے کم عمر کے بچے اپنے ماں باپ کی رضامندی کے بغیر مذہب تبدیل نہیں کر سکتے اور یہ کہ جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے والوں کو قانون کے ذریعے سزا دی جائے گی۔ لیکن قدامت پسند گروہوں کے ردعمل کے بعد قانون کے اس چراغ میں روشنی کم ہی دیکھنے کو ملی۔

سوچنے کی بات ہے کہ جس سماج میں، جہاں ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے حوالے سے حساسیت نہ پائی جاتی ہو، وہاں اقلیتوں کے بچے کس قدر غیر محفوظ زندگی گزار رہے ہوں گے؟ اس ملک میں ریپ اور جنسی زیادتیوں پر کلام کی بات تو بہت دور کی بات ہے، ابھی تو ہمارا آئین اس نتیجے پر نہیں پہنچ پایا کہ ایک بچے کی یا بالغ بچے کی حد عمر کیا ہونی چاہیے؟

پنجاب کہتا ہے کہ لڑکی 16 سال میں جب کہ لڑکا 18 سال میں بالغ ہوتے ہیں۔ سندھ کہتا ہے لڑکا اور لڑکی 18 سال میں بالغ ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کہتے ہیں کہ 14 سال میں ہی دونوں بالغ عمر میں پہنچ جاتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں تو سنا تھا، اب جتنے صوبے اتنی باتیں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

چلو مان لیا کہ ہمارے پاس مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی پر کوئی قانون نہیں ہے، اس لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ نہیں کر سکتے لیکن کسی نابالغ لڑکی کو گھر سے اغواء کر کے اس سے شادی کر لینا کون سی ایسی مشکل بات ہے کہ اس کو سمجھنے کے لیے افلاطون ہونا پڑے۔

 یہاں تو حد یہ ہے کہ ہائی کورٹ کی سماعت کے بعد بھی آرزو کو مبینہ ملزم کے گھر میں ایسے رکھا گیا ہے، جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔ پھر سے کہوں گی کہ یہ کیس صرف آرزو کا نہیں ایسی کئی غیرمسلم لڑکیوں کے کیسز ریکارڈ ہوتے رہے ہیں اور ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں لڑکی کو مبینہ ملزم کے گھر میں پناہ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ آرزو کی بات تو سامنے اس لیے آگئی کہ اس کی ماں کی چیخ و پکار میں دم تھے۔ یہاں کئی آرزوئیں اس لیے کچل دی جاتی ہیں کہ ان کے ولی وارث اپنی آواز نہیں پہنچا پاتے۔

 2017 میں رویتا کا کیس منظر عام پر آیا، جس کی عمر 16 سال تھی۔ نگرپور کے ایک گاؤں سے پنجاب لے جا کر سید نواز علی شاہ سے اس کی شادی کروا دی گئی تھی۔ عدالت نے فیصلہ سید نواز کے حق میں دیا اور ایک معصوم سی بچی کو اسی  ملزم کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ حالانکہ سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادی غیر قانونی اور قابل سزا جرم ہے۔ لیکن جس معاشرے میں لوگوں کا رجحان کی الٹی سمت میں چل رہا ہو وہاں قانون کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟

پدرسری نظام نے، جہاں عورتوں اور بچوں کو کمزور کیا ہوا ہے، وہاں اقلیتوں کو کمزور سے کمزور ترین کر دیا ہے۔ ایک تو وہ عورت ہوتی ہے اوپر سے اقلیتی گروہ سے ہوتی ہے۔ یہ غم کے اوپر ایک غم ہے۔ اس عمل کی تکمیل تو بسا اوقات ثواب کی نیت سے کی جاتی ہے۔ پھر مذہب کے نام پر ہونے والی اس کارروائی میں دیگر سرکاری اہلکار آگے آتے جاتے ہیں اور ثواب کماتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے رک کر ہم حساب نہیں لگاتے کہ ایک ثواب کی آرزو میں ہم کتنی آرزووں کا قتل کر دیتے ہیں۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں