ایک جہادی سے وائٹ ہاؤس کے معزز مہمان بننے تک کا سفر
8 نومبر 2025
الشرع، جن کی قیادت میں باغی افواج نے گزشتہ سال کے آخر میں طویل عرصے سے حکمران بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا تھا، اس تاریخی دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔
رواں ماہ کے شروع میں شام کے لیے امریکی نمائندے ٹام بیرک نے کہا تھا، ''امید ہے کہ الشرع داعش (آئی ایس) کے خلاف امریکی قیادت والے عالمی اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے کا معاہدہ کریں گے۔‘‘
شام میں امریکی فوجی اڈے کے قیام کا ارادہ
ایک شامی سفارتی ذریعے بے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''امریکہ دمشق کے قریب ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد کے لیے رابطہ کاری کے ساتھ ساتھ شام اور اسرائیل کے درمیان پیش رفت پر بھی نظر رکھی جا سکے۔‘‘
پیر کے روز دورے سے قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعرات کو الشرع پر عائد پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ قبل ازیں الشرع کو اب تک ہر غیر ملکی سفر کے لیے اقوام متحدہ سے خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا تھا۔
مئی میں شام کے اس عبوری رہنما نے صدر ٹرمپ سے پہلی بار ریاض میں ملاقات کی تھی، جب امریکی صدر علاقائی دورے پر تھے۔ قبل ازیں القاعدہ سے وابستہ الشرع کی جماعت ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کو واشنگٹن نے جولائی میں دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست سے نکال دیا تھا۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شام کے نئے رہنما اپنے پرتشدد ماضی سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ایک اعتدال پسند چہرہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک ایسا چہرہ، جو عام شامیوں اور غیر ملکی طاقتوں کے لیے زیادہ قابل قبول ہو۔
'الشرع اب دہشت گرد نہیں رہے‘
مؤرخ سامی مباید نے بتایا کہ الشرع کا دورہ واشنگٹن ''جدید شامی تاریخ میں کسی شامی صدر کا وائٹ ہاؤس کا پہلا دورہ ہو گا۔‘‘ مجموعی طور پر یہ الشرع کا امریکہ کا دوسرا دورہ بھی ہو گا، جبکہ ستمبر میں انہوں نے دہائیوں بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے پہلے شامی صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔
نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ پالیسی کے تجزیہ کار نِک ہیرس کہتے ہیں، ''الشرع کا وائٹ ہاؤس کا دورہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کے ایک نئے باب کا اعلان ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''ٹرمپ انہیں وائٹ ہاؤس لا رہے ہیں تاکہ بڑا بیان دیں کہ الشرع اب دہشت گرد نہیں رہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں، ''ٹرمپ کی ٹیم الشرع کو ایک عملی اور اہم بات یہ ہے کہ ایک لچکدار رہنما سمجھتی ہے، جو امریکی اور سعودی رہنمائی میں آنے والی دہائیوں تک شام کو علاقائی قلعہ بنائے رکھے گا۔‘‘
الشرع کی جانب سے شام کے لیے فنڈز کی تلاش متوقع ہے۔ ہیرس کہتے ہیں، ''الشرع ٹرمپ کی توثیق چاہتے ہیں تاکہ اربوں ڈالر ملنے کے راستے کھل جائیں۔ شام میں بحالی کے عمل کا آغاز ہو اور ان کا ملک پر کنٹرول غیر معینہ مدت تک مستحکم ہو۔‘‘
13 سالہ خانہ جنگی کے بعد شام کے نئے اسلامی حکام کے سامنے تعمیر نو سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ورلڈ بینک نے اکتوبر میں شام کی تعمیر نو کی لاگت کا ''محتاط تخمینہ 216 ارب ڈالر‘‘ لگایا تھا۔
'اسرائیلی اثر و رسوخ‘
ایک شامی سفارتی ذریعے نے بتایا کہ امریکہ ''دمشق کے قریب واقع المزہ فوجی ہوائی اڈے پر اپنی موجودگی قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ شام و اسرائیل کے درمیان پیش رفت پر نظر رکھی جائے۔‘‘
ایک دوسرے شامی سفارتی ذریعے نے کہا کہ شام کی جہادی مخالف اتحاد میں شمولیت کا سوال ''وائٹ ہاؤس ملاقات کے ایجنڈے میں سرفہرست‘‘ ہو گا۔
ابھی تک شام میں تعینات امریکی فوج کی اکثریت شمال مشرق میں کرد افواج کے زیر کنٹرول علاقوں میں موجود ہے۔ کرد قیادت والی شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے شام میں داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں 2019ء میں داعش کو علاقائی شکست ہوئی۔
ایس ڈی ایف فی الحال شام کی فوج میں انضمام کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔
ٹرمپ اور الشرع اسد کی معزولی کے بعد شروع ہونے والے شام اور اسرائیل کے براہ راست مذاکرات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ یہ دونوں ملک تکنیکی طور پر اب بھی جنگ کی حالت میں ہیں۔
ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ شام دیگر عرب ممالک کی طرح ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئے گا۔ ستمبر میں الشرع نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے سکیورٹی معاہدے کی امید ظاہر کی تھی مگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکان کو کم اہمیت دی تھی۔
گزشتہ دسمبر سے اسرائیل نے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی بفر زون میں فوجیں تعینات کر رکھی ہیں اور شام میں سینکڑوں حملے بھی کیے ہیں تاہم دمشق حکومت نے ابھی تک کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔
ہیرس کے بقول، ''ٹرمپ کا شام کے لیے وژن، اس ملک کے ایک اسٹریٹیجک حصے پر اسرائیلی اثر و رسوخ کو آنے والے برسوں تک یقینی بناتا ہے۔‘‘
ادارت: مقبول ملک