ایک خاتون پر حملے کے بعد سربیا میں مہاجرین کیمپ کا محاصرہ
2 فروری 2017داراحکومت بلغراد کے قریب واقع ایک مہاجر بستی کے قریب اس خاتون پر حملے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ سربیا کے وزیر برائے لیبر اور مہاجرین مراکز الیگزنڈر ووُلِن نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ اس پناہ گزین مرکز میں موجود تارکین وطن کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ ابرینووِچ کے علاقے میں قائم اس مہاجر بستی میں موجود تارکین وطن کو اب اس بستی سے باہر جانے کے لیے مقامی حکام سے اجازت نامے کی ضرورت پڑے گی۔
ووُلِن نے بتایا، ’’ہم سخت اقدامات متعارف کروا رہے ہیں۔ ان افراد کو ہر حال میں مقررہ وقت سے قبل اپنے کیمپ میں واپس لوٹنا ہو گا اور انہیں خصوصی شناختی دستاویزات جاری کی جائیں گی۔‘‘
گزشتہ برس مارچ سے بلقان کے ذریعے یورپی یونین میں داخلے کا راستہ بند ہے اور بلقان ریاستوں نے اپنی قومی سرحدوں پر نگرانی بڑھا رکھی ہے، تاہم اب بھی درجنوں افراد اس راستے کو استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں، جب کہ ہزاروں افراد بلقان ریاستوں میں پھنسے ہوئے بھی ہیں۔ سربیا میں موجود تارکین وطن کی تعداد کی تعداد سات ہزار ہے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ابرینووِچ کی مہاجر بستی میں مقیم تارکین وطن کی تعداد پانچ سو ہے۔ ان افراد کو مختلف خیمہ بستیوں سے اس مہاجر مرکز میں منتقل کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق مہاجر بستی کے مکینوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے اقدامات ایک مقامی خاتون کی جانب سے شکایت پر متعارف کروائے گئے۔ اس خاتون نے شکایت کی تھی کہ تین تارکین وطن نے اس پر اس وقت حملہ کیا، جب وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اس مہاجر مرکز کے قریب سے گزر رہی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔