ہانگ کانگ میں بطور گھریلو ملازمہ کام کرنے والی فلپائن کی ایک خاتون کو رحم مادر کے سرطان کی تشخیص کے بعد اس کے آجر خاندان نے نوکری سے نکال دیا تھا۔ اب اس مریضہ کے علاج کے لیے قریب ساڑھے سات لاکھ ڈالر جمع ہو گئے ہیں۔
اشتہار
ہانگ کانگ سے منگل بارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس خاتون کا نام جین ایلس ہے، جو فلپائن سے تعلق رکھتی ہے اور چین کے اس خصوصی انتظامی علاقے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔
کھانا چاہتے ہیں؟ تو جگہ دستیاب ہے ٹوائلٹ کے ساتھ
کیا آپ اپنا کھانا ایک ایسے کمرے میں پکانے کا تصور کر سکتے ہیں جس میں ساتھ ہی ٹوائلٹ بھی ہو؟ یقیناﹰ نہیں۔ لیکن ہانگ کانگ میں کئی افراد انتہائی تنگ کمروں میں اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
نامساعد حالات
ہانگ کانگ میں کئی ایسے اپارٹمنٹس ہیں جہاں کھانا پکانے کے لیے جگہ عین ٹوائلٹ کے ساتھ ہی موجود ہے۔ کئی لوگ اس طرح کے حالات کو غیر انسانی تو سمجھتے ہیں لیکن ان میں رہنے پر مجبور بھی ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
کچن اور باتھ روم ایک ساتھ
کینیڈین فوٹوگرافر بینی لام نے ’ٹریپ ‘ یعنیٰ پھنسے ہوئے ‘ کے عنوان سے اپنی تصاویری سیریز کے ذریعے ہانگ کانگ کی پوشیدہ کمیونٹی کی زندگی کے احوال کو عکس بند کیا ہے۔ ان کی یہ سیریز ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کے تعاون سے بنائی گئی ہے جو غربت کے خاتمے اور شہری حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
محدود جگہ
تقریبا 7.5 ملین آبادی اور ترقیاتی کاموں کے لیے ہانگ کانگ میں زمین کی غیر موجودگی کے باعث اس شہر میں رہائشی اپارٹمنٹس اور گھروں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور اب یہاں رہائش اختیار کرنا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے سے زیادہ مہنگا ہے۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
نا قابل برداشت صورتحال
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس شہر میں اسی طرح کے 88 ہزار اپارٹمنٹس میں تقریباﹰ 2 لاکھ سے زائد افراد رہنے پر مجبور ہیں۔ رہائشیوں کو اس محدود جگہ میں اپنے روز مرہ کی ضروری سرگرمیاں انجام دینا پڑتی ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
اپارٹمنٹس کی دگنی قیمتیں
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صرف 2007 سے 2008ء کے درمیانی عرصے میں گھروں کی قیمتیں دگنی ہو گئیں۔ ان چھوٹے سے گھروں کے اکثر باسیوں کے لیے گھر لوٹنے کی سوچ ہی انتہائی پریشان کن ہوتی ہے۔ کئی گھروں کے رہائشی تازہ ہوا میں سانس لینے کو بھی ترستے ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
میٹرس کے سائز کے برابر گھر
ان گھروں میں رہنے والوں کا تعلق کم تنخواہ دار طبقے سے ہے جو یہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ کئی کمرے تو ایسے ہیں جس میں وہ نہ تو مکمل طور پر سیدھا کھڑے ہو پاتے ہیں اور نہ ہی پاوں پسار سکتے ہیں۔ یہاں لال بیگ (کاکروچ) اور کھٹمل ان کے ساتھی ہیں۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
تابوت یا پنجرہ گھر
دو سال تک اپنی تصاویری سیریز پر کام کرنے والے لام نے کوشش کی ہے کہ یہاں غریبی اور امیری کے درمیان گہری ہوتی خلیج کی عکاسی کی جائے۔ ’پنجرہ ‘ یا ’ تابوت‘ کا نام دیے گئے ان گھروں کی تصاویر ان حالات کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
انسانی نفس کی تذلیل
اقوام متحدہ کی جانب سے ان حالات کو عزت نفس کی تذلیل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں کچھ بہتری کی امید کی جا رہی ہے اور اس کے لیے حکومت نے 2027ء تک 280,000 نئے گھروں کی تعمیر کا عندیہ دیا ہے جہاں زندگی کی کوالٹی کو مد نظر رکھا جائے گا۔
تصویر: Benny Lam & SoCo
8 تصاویر1 | 8
جین ایلس کے بارے میں فروری کے وسط میں ڈاکٹروں نے یہ تشخیص کی تھی کہ وہ رحم مادر کے تیسرے درجے کے سرطان کی مریضہ تھی۔ اس پر اس کے آجر خاندان نے اسے نوکری سے نکال دیا تھا۔
یہ فلپائنی خاتون بے روزگار ہو جانے کی بعد ہانک کانگ میں اپنے لیے میڈیکل انشورنس سے بھی محروم ہو گئی تھی اور اس بات کی حقدار نہیں تھی کہ اس کا علاج ہو سکتا۔ جین ایلس اس وقت اپنی ایک بہن کی آجر خاتون جیسیکا پاپاڈوپولوس کے پاس عارضی طور پر رہ رہی ہے۔ اس کی بہن بھی ایک گھریلو خادمہ ہے۔
کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے عطیات
اسی دوران اس کی مدد کے لیے سوشل میڈیا پر ایک کراؤڈ فنڈنگ مہم شروع کی گئی۔ اس مہم کے دوران کل پیر گیارہ مارچ کی صبح تک جین ایلس کے لیے عطیات کے طور پر قریب ساڑھے سات لاکھ ہانگ کانگ ڈالر جمع ہو چکے تھے۔ یہ رقم تقریباﹰ 95 ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ یہ گھریلو خادمہ 2017ء میں ملازمت کے لیے فلپائن سے ہانگ کانگ گئی تھی اور وہاں کام کے دوران اس کے آجر خاندان نے اسے کھانے کے لیے شروع سے ہی ناکافی خوراک دینے کا طرز عمل اپنا رکھا تھا۔ اسی دوران جین ایلس کا وزن 16 کلوگرام کم ہو گیا تھا۔
جین ایلس کے لیے مالی عطیات جمع کرنے کی مہم جیسیکا پاپاڈوپولوس نے شروع کی تھی اور وہی اب ہانگ کانگ میں اس خاتون کے علاج کے لیے تمام تر انتظامات کر رہی ہیں۔ انہوں نے اب سرطان کی اس مریضہ کی طرف سے ہانگ کانگ کے محکمہ محنت کے ذریعے جین ایلس کے سابقہ آجر کے خلاف قانونی کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔
ایشیا کے مہنگے ترین شہر، رہائش رکھنا انتہائی مشکل
دنیا کے دس مہنگے ترین شہروں میں چھ کا تعلق ایشیا سے ہے۔ یہ شہر نئے آبادکاروں کے لیے انتہائی مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel
بیجنگ، چین
دنیا کا نواں مہنگا ترین شہر چینی دارالحکومت بیجنگ ہے، جہاں مکانات کی قیمتیں اور کرائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ بیجنگ کے انٹرنیشنل اسکول بھی اپنی فیس میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چینی کرنسی یوان کی قدر میں استحکام سے چینی شہروں میں زنگی بسر کرنا مشکل تر ہو گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/F. Li
شنگھائی، چین
چین کی مرکزی سرزمین پر سب سے مہنگا ترین شہر شنگھائی ہے۔ چینی بندرگاہی شہر دنیا کا ساتواں مہنگا ترین شہر ہے۔ شنگھائی میں پچاسی مربع میٹر اپارٹمنٹ کا کرایہ 1800 سو سے 2170 امریکی ڈالر ( 1030 یورو سے 1800 یورو) تک ہے۔ اس شہر میں ہر چیز کی خرید و فروخت کا تعلق کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے منسلک ہے اور نئے آباد ہونے والوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yu Shenli
سیئول، جنوبی کوریا
جنوبی کوریا کا دارالحکومت سیئول غیر ملکی آبادکاروں کے لیے پانچواں مہنگا ترین شہر ہے۔ غیر ملکیوں کے ساتھ سیئول کے باسی بھی اس پر متفق ہیں کہ ایک کافی کا کپ بھی اس شہر میں بہت مہنگا ہے اور یہ دس امریکی ڈالر ( 8.60 یورو) کا ہے۔ ایک جینز کی پینٹ کی اوسط قیمت ڈیڑھ سو امریکی ڈالر ہے۔ مجموعی طور پر سیئول میں زندگی گزارنا خاصا مشکل کام ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
سنگا پور
اس شہری ریاست کو جنوبی ایشیائی مالیاتی مرکز خیال کیا جاتا ہے۔ یہ غیرملکی افراد کے لیے دنیا کا چوتھا مہنگا ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ سنگا پور میں جینز پینٹ کی اوسط قیمت ایک سو امریکی ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔ یہ قیمت امریکی شہر نیویارک کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ سنگا پور میں گاڑیوں کے لیے پیٹرول بھی بہت مہنگا ہے، اور فی لیٹر قیمت دو امریکی ڈالر سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/G. Hellier
ٹوکیو، جاپان
جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی آبادی نوے لاکھ سے زائد ہے اور یہ اقوام عالم میں دوسرا مہنگا ترین شہر ہے۔ ماہرین کے مطابق جاپانی شہروں میں زندگی بسر کرنے میں قدرے آسانی کی وجہ جاپانی ین کی قدر کا امریکی ڈالر کے مقابلے میں عدم استحکام ہے۔ ٹوکیو میں پچاسی مربع میٹر کے فرنشڈ اپارٹمنٹ کا کرایہ 2700 سے 3500 امریکی ڈالر ( 2300 سے 3000 یورو) تک ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
ہانگ کانگ، خصوصی انتظامی اختیارات کا حامل چینی شہر
سن 2018 میں ہانگ کانگ کو دنیا بھر میں سب سے مہنگے شہر کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ اس شہر میں کرائے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور یہ نئے غیر ملکیوں کے لیے انتہائی پریشانی کا سبب ہے۔ ہانگ کانگ میں کافی کے ایک کپ کی قیمت اور فی لیٹر پٹرول بھی دنیا بھر میں سب سے مہنگا ہے۔ غیر ایشیائی شہروں میں سوئٹزرلینڈ کے بیرن اور زیورچ، چاڈ کا اینجمینا کے علاوہ انگولا کا لوانڈا بھی انتہائی مہنگے شہروں میں شمار کیے جاتے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Prisma
6 تصاویر1 | 6
جین ایلس واحد مثال نہیں
جین ایلس کی کہانی ہانگ کانگ میں کسی ایک گھریلو ملازمہ کی کہانی نہیں ہے۔ ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ فلپائن کی اس خاتون شہری کو درپش حالات اس درد ناک صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں، جن کا چین کے اس خصوصی خطے میں کام کرنے والے گھریلو ملازمین کی بہت بڑی اکثریت کو سامنا رہتا ہے۔
اس وقت ہانگ کانگ میں ایسے غیر ملکی کارکنوں کی تعداد تقریباﹰ تین لاکھ ستّر ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین ہیں، جو گھریلو خادماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان میڈز یا گھریلو ملازماؤں کا تعلق زیادہ تر فلپائن اور انڈونیشیا سے ہوتا ہے۔
ڈربوں جیسے حالات میں زندگی
ہانگ کانگ میں سرکاری دفتر شماریات کے مطابق یہ غیر ملکی زیادہ تر ’گھریلو معاونین‘ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کام بچوں کی دیکھ بھال اور آجر خاندان کے بزرگ افراد کی نگہداشت بھی ہوتا ہے۔ ان غیر ملکی کارکنوں کو قانوناﹰ اپنے آجر خاندانوں کے ساتھ ہی رہنا ہوتا ہے اور اسی لیے ان کے شدید تر استحصال، مسلسل بھوکا رکھے جانے اور جسمانی مار پیٹ کے واقعات بھی اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہانگ کانگ میں مجموعی طور پر چونکہ رہنے کے لیے جگہ کی بہت قلت ہے اور گھروں کے کرائے بھی بہت زیادہ ہیں، اس لیے ایسی زیادہ تر گھریلو خادمائیں زمین پر یا الماری نما تنگ جگہوں پر سوتی ہیں اور ڈربوں جیسی صورت حال میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
م م / ع ح / ڈی پی اے
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔