ایک دن میں پانچ ہزار تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچایا لیا گیا
شمشیر حیدر24 جون 2016
اطالوی ساحلی محافظوں نے ایک دن میں پانچ ہزار تارکین وطن کو بحیرہء روم میں ڈوبنے سے بچا لیا ہے۔ یہ تارکین وطن ربڑ کی کشتیوں کے ذریعے بحیرہء روم کا طویل راستہ عبور کر کے لیبیا سے اٹلی پہنچنا چاہ رہے تھے۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں، اطالوی نیوی اور ساحلی محافظوں نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ربڑ کی کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرنے والے پانچ ہزار تارکین کو کھلے سمندر سے نکال کر ایک اور بڑا انسانی المیہ رونما ہونے سے بچا لیا ہے۔
اطالوی کوسٹ گارڈز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بہتر موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کے اسمگلروں نے ہزاروں تارکین وطن کو ربڑ کی کشتیوں میں سوار کر کے لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی کی جانب روانہ کر دیا تھا۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بحیرہء روم میں اب بھی امدادی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
بحیرہء روم میں جاری ان امدادی کارروائیوں میں اطالوی نیوی کے پانچ، یورپی یونین کے دو جبکہ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے چار بحری جہاز بھی شریک ہیں۔ لیبیا کی نیوی کے ترجمان ایوب قاسم کا کہنا تھا کہ ملکی ساحلوں سے اٹلی کی جانب گامزن تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق عرب اور افریقی ممالک سے ہے۔
لیبیا کی بحریہ نے بھی ایک ہزار تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا ہے۔ یہ تارکین وطن ربڑ کی آٹھ کشتیوں میں سوار تھے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے بحیرہء روم میں پھنسی دو کشتیوں کی نشاندہی کی جس کے بعد اطالوی بحریہ کے ایک مشن نے ان میں سوار 515 پناہ گزینوں کو بچا لیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’مائگرینٹ آف شور ایڈ اسٹیشن‘ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ’’ہزاروں تارکین وطن نے ایک ہی دن میں بحیرہء روم کا سفر کرنا شروع کر دیا ہے جس کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران خراب موسم کی وجہ سے سمندری سفر نہیں کیا جا سکا تھا۔‘‘
ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے پر عمل درآمد کے بعد بحیرہ ایجیئن کے ذریعے ترکی سے یونانی جزیروں کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تارکین وطن اسی وجہ سے بحیرہء روم کا طویل اور خطرناک راستہ اختیار کر رہے ہیں۔
تاہم بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ بحیرہء روم کے راستوں سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ آئی او ایم کا یہ بھی کہنا ہے کہ بحیرہء روم عبور کرنے کی کوششوں میں اب تک پچیس سو پناہ گزین ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک 56 ہزار سے زائد تارکین وطن کو بحیرہء روم کے کھلے پانیوں سے نکال کر اطالوی ساحلوں تک پہنچایا جا چکا ہے۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔