’ایک دوسرے سے بات کریں، جان سے نہ ماریں‘، سویتلانا الیکسیوچ
11 مارچ 2016سڑسٹھ سالہ سویتلانا الیکسیوچ نے اپنے اس دورے کے دوران ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ انسان کو آزادی کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے، یہ آسمان سے نہیں گرتی تاہم اس کے لیے درست طریقے اختیار کیے جانے چاہییں:’’ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، ایک دوسرے کو ہلاک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
اس انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر خاموش طبع ہیں اور محض لکھنے لکھانے میں مشغول رہنا زیادہ پسند کرتی ہیں لیکن جب سے نوبل انعام ملا ہے، اُن کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ نوبل انعام ملنے کے بعد انہیں اس مشکل کا سامنا ہے کہ انہیں ایک ایک لفظ تول تول کر بولنا پڑتا ہے کیونکہ ادھر اُن کے منہ سے کچھ نکلتا ہے اور اُدھر وہ سب کچھ شائع ہو جاتا ہے۔
سویتلانا الیکسیوچ جرمن شہر کولون میں منعقد ہونے والے سالانہ ادبی میلے لِٹ کولون میں شرکت کے لیے جرمنی آئی ہوئی تھیں۔ اس دوران ایک ایسی ادیبہ کے طور پر، جنہوں نے جنگ کے موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے، اُن کے منہ سے نکلا ہوا یہ جملہ کافی مشہور ہوا کہ دنیا میں اب ایک بار پھر سرد جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ روس میں ذلت، محرومی اور اقتصادی پسماندگی کے شکار لوگوں کے اندر بے پناہ نفرت پیدا ہو چکی ہے اور حکمرانوں نے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے اُن کی نفرت کا رُخ ایک فرضی ’بیرونی دشمن‘ کی جانب موڑ دیا ہے:’’پوٹین کچھ نیا نہیں کر رہے۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور یہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔‘‘
اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر روسی عوام خاموش کیوں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سویتلانا الیکسیوچ نے کہا کہ لوگ سرمایہ دارانہ نظام نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ روسی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جب ایسے میں پوٹن نے اُنہیں یہ بتایا کہ ’ہمارے چاروں جانب دشمن ہی دشمن ہیں، ہمیں طاقتور بننا چاہیے، لوگوں کو ہم سے خائف ہو کر رہنا چاہیے‘ تو تب اُن کی دنیا پھر سے گویا معمول پر آ گئی کیونکہ اس طرح کی زندگی اُن کے مزاج سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ اس چیز نے اُنہیں پھر سے ایک بڑے قومی یونٹ کی صورت میں متحد کر دیا۔‘‘
سویتلانا الیکسیوچ نے نوبل انعام وصول کرتے وقت چرنوبل ایٹمی ری ایکٹر میں ہونے والی تباہ کاری کا بھی پُر زور ا نداز میں ذکر کیا تھا۔ اس سال اس حادثے کو تیس برس پورے ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اس ادیبہ نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں اُن کے جتنے بھی دوست احباب کا انتقال ہوا، وہ سبھی سرطان میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں گئے:’’حکمران اپنے لیے تو خصوصی فارمز اور کارخانوں میں اشیائے خوراک پیدا کروا رہے ہیں جبکہ عام لوگ تابکاری سے آلودہ اَشیاء کھا کر بیمار ہور رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔‘‘
سویتلانا الیکسیوچ کا کہنا تھا کہ اب وہ جنگ پر لکھ لکھ کر تنگ آ چکی ہیں اور انسانوں کے اندر پایا جانےوالا یہ جنون اُن کے لیے ناقابل برداشت ہو چکا ہے:’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ انسان کسی دوسرے انسان کی جان لینے کا حق کیسے حاصل کر لیتا ہے۔ جنگ جائز ہو یا ناجائز، بالآخر ہوتا یہ قتل ہی ہے۔ میرے خیال میں اکیسویں صدی میں ہمیں تصورات اور خیالات کی مدد سے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی بجائے آپس میں بات چیت کرنی چاہیے لیکن ہم بدستور قتل کرتے جا رہے ہیں۔ یہ وحشیانہ عمل ہے۔‘‘
سویتلانا الیکسیوچ کے مطابق آج کل وہ دوکتابوں پر کام کر رہی ہیں، جن میں سے ایک کتاب محبت اور دوسری بڑھاپے میں انسان کی زندگی کے موضوع پر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی نے انسان کی زندگی میں بیس تا تیس سال کا اضافہ کر دیا ہے اور لوگ نہیں جانتے کہ وہ اس اضافی عمر کا کیا کریں:’’میرے خیال میں اس اضافی زندگی کے اندر بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے، کوئی روحانی مقصد۔‘‘