ایک سال میں نو لاکھ سے زائد پاکستانی پردیسی ہو گئے
عبدالستار، اسلام آباد6 مئی 2016
گزشتہ برس ایک ملین کے قریب پاکستانیوں نے بہتر مستقبل اور روزگار کے لئے مختلف ممالک کا رخ کیا۔ سینٹ کے ایک پینل کو بتایا گیا کہ 1971ء سے اب تک 90 لاکھ سے زائد پاکستانی شہری روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک گئے۔
اشتہار
اپنے پیاروں سے دور یہ محنت کش پاکستانی دن رات ایک کر کے انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور پاکستان کی معیشت کو چلانے کے لئے زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ بھیج رہے ہیں۔ مالیاتی سال برائے 2014-2015 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 18.4بلین ڈالرز پاکستان بھیجے۔ زرمبادلہ کا سب بڑا حصہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے بھیجا، جو 5.6 بلین ڈالرز سے زیادہ تھا۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ خون پسینے سے کمانے والے ان پاکستانیوں کا کوئی پر سانِ حال نہیں ہے۔ نیشنل ٹرید یونین فیڈریشن پاکستان کے رہنما ناصر منصور نے ان مزدوروں کی حالتِ زار کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے حال ہی میں قطر کا دورہ کیا ہے۔ ایک ایک کمرے میں 10 سے 12 پاکستانی مزدور رہے ہیں۔ وہ ان کمروں میں شفٹوں میں رہتے ہیں۔ اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو ایک عذاب کھڑا ہوجا تا کیوں کہ جراثیم دوسرے لوگوں کو بھی لگ سکتے ہیں۔ ان مزدوروں کے پاس نہ کوئی صحت کی سہولت ہے اور نہ کوئی سوشل سیکیورٹی۔‘‘
ناصر منصور کا مزید کہنا تھا، ’’غیر ہنر مند مزدور، جس میں ایک بڑی تعداد پختونوں کی ہے، تیس سے چالیس ہزارکما رہے ہیں جب کہ ڈرائیور کی تنخواہ اسی سے نوے ہزار پاکستانی روپیہ ہے۔ پاکستان میں اِن کو اِتنے پیسے کون دے گا؟ اِس لئے بے چارے وہاں کام کرتے ہیں۔‘‘
یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے پاکستانی
02:33
سینٹ کے پینل کو بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ پاکستان کی آبادی کا بارہ فیصد ہے لیکن بیرون ملک مزدورں میں ان کی شرح 26 فیصد ہے۔ عوا می نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ صوبے میں روزگار کے وسائل محددو ہیں اس لئے پختون مزدوروں کو دوسرے ممالک جانا پڑتا ہے۔
افراسیاب خٹک کا کہنا تھا، ’’ہمارے صوبے کے ہر ضلع سے لوگ محنت مزدوری کے لئے باہرگئے ہوئے ہیں۔ چند ایک اضلاع، جہاں زراعت زیادہ ہے، وہاں سے باہر جانے والوں کی تعداد کم ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں سرحد کے دونوں اطراف پختون جنگوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں، جس سے ان کی معیشت اور معاشرت بری طرح تباہ ہوئی ہے۔ اس صورت حال نے بھی پختونوں کو دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔خلیج میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے کفیل کا نظام بہت استحصالی ہے۔ مزدور کم و بیش کفیل کے غلام بن کے رہے جاتے ہیں۔ حکومت کو اس مسئلے کا بہت سنجیدگی سے حل نکالنا چاہیئے۔‘‘
بلوچوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین چھوڑ کر نہیں جاتے، لیکن اس صوبے سے بھی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد دیارِ غیر میں ہے۔
سینیٹر حاصل بزنجو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مکران ڈویژن میں زراعت نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں سے خلیجی ممالک گئی ہے۔ ہمارے لوگ زیادہ تر مسقط، بحرین، دوبئی اورسعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔ مسقط کی فوج میں تو ایک وقت میں چالیس فیصد کے قریب بلوچ تھے۔ مسقط کی فوج میں بلوچ میجر کے عہدے تک جا سکتے تھے جب کہ اعلیٰ عہدے مقامی لوگوں کے لئے مختص تھے۔ کیوں کہ زیادہ تر بلوچ سنی ہیں، اس لئے اب بحرین بھی انہیں بلارہا ہے اور کئی لوگوں کو شہریت بھی دے رہا ہے۔‘‘
یہ بلوچ تارک وطن جرمنی کیوں آنا چاہتا ہے؟
01:35
This browser does not support the video element.
شمالی اور وسطی پنجاب سے بہت سارے لوگ یورپ، امریکا اور مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ جب کہ جنوبی پنجاب سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کر رہی ہے۔
حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے پروفیسر صلاح الدین کا کہنا ہے کا زیادہ تر چھوٹے کسان، جن کی تین یا چار ایکٹرز زمین ہوتی ہے، باہر جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ’’باہر جانے کے لئے پیسہ درکار ہوتا ہے، جو بے زمین کسان کے پاس تو نہیں ہے۔ پنجاب سے چھوٹے کسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی زمین بیچ کر بیرون ملک جاتی ہے۔ باہر جانے کا یہ رجحان بھٹو صاحب کے دور میں شروع ہوا تھا، جب مشرقِ وسطیٰ میں افرادی قوت کی بہت ضرورت تھی۔‘‘
اکنامک افیئرز ڈویژن کے سابق سیکریٹری سلیم سیٹھی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کسی بھی ملک میں Foreign Reserves کے تین ذرائع ہوتے ہیں، برآمدات سے آنے ولا پیسہ اور سرمایہ کاری کی مد میں لگایا جانے والا پیسہ۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں remittances بھی اس کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے بغیر معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔‘‘
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘